غزہ میں مقبوضہ مغربی کنارے میں اس وقت شدید کشیدگی جاری ہے۔ اسرائیلی افواج اور آبادکاروں نے متعدد علاقوں پر چھاپے مارے اور فلسطینیوں کو نشانہ بنایا۔
اسرائیلی فوج نے قلقیلیہ کے جنوب میں واقع قصبے سنیریہ اور جنین کے جنوب میں واقع قباطیہ پر بھی حملہ کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ اتوار کو اسرائیلی فضائی تازہ حملوں میں کم از کم 27 فلسطینی مارے گئے جن میں چھ افراد ایک پانی کی تقسیم والے مقام کے قریب نشانہ بنے۔
سول ڈیفنس کے ترجمان محمود بصل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ غزہ شہر پر رات گئے اور اتوار کی صبح سویرے متعدد فضائی حملے کیے گئے جن میں بچوں اور خواتین سمیت آٹھ افراد اپنی جانوں سے گئے جبکہ متعدد زخمی بھی ہوئے۔
ترجمان کے مطابق ایک اور فضائی حملے میں نصیرات پناہ گزین کیمپ کے قریب ایک رہائشی مکان کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں 10 مزید افراد قتل اور متعدد زخمی ہوئے۔
وفا نیوز ایجنسی کے مطابق بیت لحم کے جنوب مشرق میں واقع گاؤں المنیہ کے قریب اسرائیلی آبادکاروں نے رات گئے فلسطینی گھروں پر حملہ کیا۔ نابلس شہر اور بلاطہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی چھاپوں کے دوران تین فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا جن میں ایک باپ اور بیٹا شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور اسرائیل کی ٹرمپ نواز پالیسی: کیا نوبل امن انعام سفارتی ہتھیار بن چکا ہے؟
سلفیت کے شمال میں واقع مردہ گاؤں میں بھی چھاپہ مار کارروائی کے دوران تین مزید فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور رہائشیوں پر تشدد کیا گیا۔

دوسری جانب، غزہ کے شہر میں اسرائیلی بمباری میں ہلاکتوں کی اطلاعات بھی آ رہی ہیں۔ خاص طور پر صبرہ محلے میں اسرائیلی حملوں میں کئی افراد شہید ہوئے۔
الدیہ خاندان کے گھر پر بمباری میں ایک بچہ شہید ہو گیا جبکہ اسی علاقے پر حملے میں ایک خاتون شہید اور تین افراد زخمی ہوئے۔
غزہ میں پہلے ہی حملوں میں کم از کم 10 افراد النصیرات، تین المواسی اور پانچ مغربی غزہ میں شہید ہو چکے ہیں۔
اسرائیل میں، تل ابیب میں مظاہرین نے غزہ میں اسرائیلی بمباری سے شہید ہونے والے بچوں کی یاد میں خاموش احتجاج کیا۔ سڑک کے کنارے مظاہرین نے شمعیں روشن کیں اور جاں بحق بچوں کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں تاکہ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ اجاگر کیا جا سکے۔

اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن اوفر کاسیف نے کہا، “مجھے شدید تکلیف اور شرمندگی ہے کہ اسرائیل گزشتہ دو برسوں سے غزہ میں جو کچھ کر رہا ہے، وہ نسل کشی ہے، ہزاروں بے گناہ شہریوں کا قتل عام، جن میں تقریباً 20 ہزار بچے شامل ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “مغربی کنارے میں بھی نسلی صفائی ہو رہی ہے اور اسرائیل کے اندر فاشزم بڑھتا جا رہا ہے۔”
نفسیات دان ہیلن ریسل نے کہا، “یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنی ہمدردی، یقین اور موقف کو ظاہر کریں۔ ہم یہ بچوں کی تصاویر کے ذریعے دکھا رہے ہیں جو غزہ میں مارے جا رہے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے شہری 7 اکتوبر کو قتل کیے گئے۔ یہ جنگ صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر جاری ہے، اس کے پیچھے اور کوئی مقصد نہیں۔”