دولت مشترکہ (کامن ویلتھ) 56 آزاد ممالک کی عالمی تنظیم ہے جو کہ جمہوریت ثقافت اور اقتصادی تعاون کے فروغ، قانونی کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے کام کرتی ہے، دولت مشترکہ ممالک میں سے زیادہ تر وہ ملک ہیں جو برطانوی راج سے آزاد ہوئے ہیں۔
دولت مشترکہ دنیا کی 30 فیصد سے زائد آبادی اور 20 فیصد سے زائد رقبے پر پھیلی ہوئی ہےجو کہ عالمی معیشت میں 16 فیصد حصہ ڈالتی ہے۔ ہر 4 سال بعد دولت مشترکہ ممالک کے مابین کھیلوں کے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ دولت مشترکہ ممالک میں سڑک اور پٹری کے بائیں جانب سفری نظام اور امریکی انگریزی کی بجائے برطانوی انگریزی کا استعمال کیا جاتا ہے، اس کا صدر دفتر برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں واقع ہے۔
پاکستان نے بھی آزادی کے بعد 1947 میں ہی دولت مشترکہ تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی تھی، لیکن 30 جنوری 1972 میں وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے برطانیہ کی جانب سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے پر
احتجاجاً دولت مشترکہ سے علیحدگی کا اعلان کر دیا، بھٹو کے اس اقدام کے باعث برطانیہ میں موجود تارکین وطن کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دولت مشترکہ سے علیحدگی کے بعد پاکستان کے لئے کامن ویلتھ کے ترقیاتی پروگراموں سے استفادے کے مواقع ختم ہو گئے، عالمی تعلقات بھی متاثر ہوئے اور کئی دہائیوں تک اقتصادی اور سفارتی ساکھ کو تقصان پہنچتا رہا۔
80 کی دہائی میں پاکستان نے ایک بار پھر سے دولت مشترکہ میں شمولیت اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، جمہوریت کی بحالی اور عالمی تعلقات کی مضبوطی کے لئے اس تنظیم کا دوبارہ حصہ بننے کی کوشش کی گئی، 1989 میں بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں پاکستان دوبارہ دولت مشترکہ کا حصہ بن گیا۔
دولت مشترکہ رکنیت بحال ہوتے ہی پاکستان کو تجارتی، اقتصادی اور تعلیمی پروگراموں میں دوبارہ شمولیت کا موقع ملا، پاکستان نے اس پلیٹ فارم کے ذریعے عالمی برادری تک اپنا مؤقف پہنچایا اور بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کو بحال کرنے کے سفر کا آغاز کیا۔
پاکستان کا برطانیہ سے آزادی کے بعد اس علامتی غلامی (کامن ویلتھ) کو اختیار کرنا، پھر سے الگ ہو کر دوبارہ حصہ بننے کا سفر عالمی تعلقات کی پیچیدگیاں اور ملکی مفادات کے لئے بین الاقوامی پلیٹ فارمز کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغیات کے پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے دولت مشترکہ سے علیحدگی کے فیصلے پر روشنی ڈالی۔ انہوں کا کہنا ہے کہ “جدید دنیا میں کوئی بھی ملک تنہا گزارا نہیں کر سکتا۔ اسے اپنے خارجی تعلقات ہر ایک کے ساتھ بنا کر رکھنے ہوتے ہیں۔ پاکستان کو پہلا نقصان یہی ہوا کہ بین القوامی سطح پر کسی حد تک ساکھ متاثر ہوئی، کیونکہ پاکستان بنے کے کچھ ہی سال بعد جمہوریت حکومت کے خاتمہ کے بعد فوجی حکومت آئی تھی۔دوسرا پاکستان کو نقصان تب ہوا جب پاکستان نے دولت مشترکہ سے علحیدگی اختیار کی تھی کیونکہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے تو پاکستان میں معیشت پر قابو پانے کے لیے دولت مشترکہ جیسے اداروں کی اشد ضرورت تھی”۔

دوسری جانب اس حوالے سے ماہر بین الاقوامی تعلقات محمد بلال نے پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفگو کرتے ہوئے کہا کہ “1972 میں پاکستان نے کامن ویلتھ چھوڑ دی تھی۔ پھر 1989 میں واپس آیا۔ اس کے بعد 2004 میں پاکستان کو سسپینڈ کردیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان دوبارہ 2008 کے اندر آگیا۔ کامن ویلتھ ایک کالونیالیزم کی نشانی ہے۔ اور کالونیالیزم کی آسان ترین تعریف یہ ہے کہ جب سے کلونیل پاؤرز نے کالونیوں کو چھوڑا ہے تو وہاں پہ وہ اپنا سسٹم اور اپنی سوچ دے کر گئے۔ اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ جب حضرت موسیؑ جس وقت بنی اسرائیل کو لے کر نکلے ہیں تو وہاں بنی اسرائیل نے خود دیکھا کس طرح ریڈ سی پھٹا کس طرح راستہ بنا فرعون ڈوبا”۔
محمد بلال نے مزید کہا کہ “اس سے پہلے بھی انہوں نے حضرت موسیؑ کے معجزات دیکھے۔ لیکن جیسے ہی موسیؑ کوہ طور پر پیغام لے جاتے ہیں تو پیچھے سے سامری ایک بچھڑا بناتا ہے اسی طرح کا بچھڑا جس کی پوجا مصری کرتے ہیں۔ اور اس کی پوجا شروع ہوجاتی ہے کہ یہ کیا ہوا ہے موسیؑ نیچے اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کیا ہوا ہے اپنے بھائی حضرتِ ہارونؑ کو ڈانٹتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ کلیونیٹیز کا مطلب یہ ہے کہ آپ جسمانی طور پر تو نکل جاتے ہیں لیکن ذہنی لحاظ سے آپ غلام رہتے ہو ان کلونیل ماسٹرز کے اور کلونیل پاؤرز کے”۔
کامن ویلتھ سے علیحدگی کے بعد چیلنجز پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نوید اقبال نے کہا کہ “میں سمجھتا ہوں کہ 2 بڑے چیلنجز تھے ایک پاکستان عالمی سطح پر ساخت کی بحالی کا تھا، کیونکہ پاکستان کا دشمن ملک بھارت پاکستان کو عالمی سطح پر نقصان کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ پاکستان کو عالمی تنہائی میں دیکھیلا جائے۔ پاکستان کو دوسرا بڑا چیلنج اس دورانیہ میں معیشت کا تھا۔ اسا دورانیہ میں پاکستاں کی معیشت خراب تھی اور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کی جارہی تھی۔ لیکن رکنیت ختم ہونے کے سبب پاکستان کو اس طرح سے فائدہ نہ ہو سکا، نہ معیشت بحال ہو پائی اور نہ ہی تجارت میں بہتری آ سکی”۔
دوسری جانب محمد بلال کے نزدیک “پاکستان کو کیا ہے تھوڑی سی سپورٹ لیکن اس چیز کے بدلے میں آپ اس چیز کے بدلے میں ان کا کنٹرول جو ہے وہ بہت زیادہ ہم پر بڑھ جاتا ہے۔ آج بھی آپ دیکھ لیں کہ ہم سمجھتے ہیں کے جو پڑھا لکھا بندہ ہے وہ امریکہ سے یا برطانیہ سے پڑھ کر آیا ہے۔ اپنی ڈگریوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ انکی تعلیم کو اور انکی ڈگریوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے لیکن ہماری خط و کتابت ساری انگریزی میں ہے۔ جو اپنا نظام اور کلونیلٹی چھوڑ کر گئے ہیں ابھی تک اسی کی پیروی کررہے ہیں۔ انہی کے نظام تلے دبے ہوئے ہیں”۔

دولت مشترکہ میں دوبارہ شمولیت پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نوید اقبال نے کہا کہ “ملکی مفاد میں بڑا اہم ہے، پاکستان جو اپنے دوست ممالک کے ساتھ علالقائی روابط چاہتا ہے۔ دولت مشترکہ کا بھی یہی اصول ہے کہ اپنے دوست ممالک کے ستاھ تعلقات اچھے ہونے چاہیے، یقیننا اس سے پاکستان کو تجارتی، معیشت اور تعلقات کے لحاظ سے فائدہ پہنچے گا۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے خواتین اور نوجوانوں کے لیے مختلف پروگرامز میں بڑے مددگار ثابت ہوں گے”۔
اس حوالے سے محمد بلال کا کہنا ہے کہ “کامن ویلتھ اور کلونیل سسٹم کو اپنانا ہمارے لیے کوئی باعزت بات نہیں ہیں بلکہ شرمندگی کی بات ہے کہ ہم ابھی تک ان کا پلو پکڑ کر کھڑے ہوئے ہیں جنہوں نے کئی سالوں تک ہمیں غلام بنائے رکھا۔ بنیادی طور پر دنیا کودنیا کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ کور اور پیرافری۔ کور ایک ترقی یافتہ لفظ ہے جبکہ پیرافری ایک غیر ترقی یافتہ لفظ ہے، وسائل سے مالامال ہے لیکن کور کے اوپر منحصر ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ ہر کور کے اندر ایک امیر طبقہ بھی اور غریب طبقہ بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر پیرافری کے اندر ایک امیر طبقہ ہوتا ہے اور ایک غریب طبقہ ہوتا ہے۔ ہم ابھی تک پیرافری میں ہی فال کر رہے ہیں”۔
انہوں نے مزید کہا کہ “ناروے کے ایک مشہور فلسفی جون گیلٹن نے ایک نظریہ دیا تھا اس نظریہ کے مطابق کور کی کور اور پیرافری کی کور دونوں آپس مین انٹر لنک ہوتی ہیں جبکہ دونوں پیرافریز یعنی کور کی پیرافری اور پیرافری کی پیرافری کی سوچ، ان کا رہن سہن آپس میں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ جو پیرافری کی کور ہوتی ہے وہ بنیادی طور پر ایک ایجنٹ کے طور پر کام کرتی ہے۔ تو اگر ہم اپنے ملک کے اندر دیکھے تو ہم منحصر ہیں اپنی سوچ میں اپنے نظریے میں اور اپنے پیراڈائم میں۔ ہمارے اوپر ہمیشہ نالج مسلط کیا جاتا ہے”۔
دولت مشترکہ کا حصہ بننے سے پاکستان کو حآصل ہونے والے فوائد پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر نوید اقبال نے کہا کہ “ظاہری سی بات ہے ترقیاتی مواقع ملتے ہیں اقتصادی تعاون ہوتا ہے، اس کے ذریعے پاکستان کو اقتصادی لحاط سے بہت فائدہ ہوا ہے، اس پلیٹ فارم کے ذریعے پاکستان میں نوجوانوں اور خواتین کو سکالرشپ وغیرہ کی صورت میں بہت زیادہ فائدہ ہوا ہے، اس کے علاوہ پاکستان میں قدرتی آفات سیلاب وغیرہ میں بہت مددگار ثابت ہوئی ہیں”۔
ادھر محمد بلال کا کہنا ہے کہ “علم جو ہے وہ ہمیشہ طاقت ور کو سپورٹ کرتا ہے بلکہ طاقت ور ہی نالج کو بناتا ہے اور پھر ہم جیسی پیرافری پر لاگو کردیا جاتا ہے۔ اب اس تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم ایک تمغہ اپنے سر پر سجا کر رکھیں کہ ہم برٹش کالونیل رہے ہیں۔ تو بنیادی طور پر کور ممالک کو یہ ایک سجدے کی مانند ہے۔ ہم بھی آزاد نہیں ہو پا رہے بالکل اسی طرح جس طرح حضرت موسیٰ کی قوم اس بچھڑے کی پرستش سے نہیں نکل پائی تھی۔ اپنے نظریے میں بھی اور اپنی سوچ میں بھی ہم انہی پر ہی منحصر ہیں”۔
دولت مشترکہ اتحاد سے مزید فائدے اٹھانے پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نوید اقبال نے کہا کہ “رکن ممالک کے درمیان تنازعات کو ختم کرنے کے لیے یہ ایک پریشر گروپ کے طور پر اچھا پلیٹ فارم ثابت ہوا ہے۔اس پلیٹ فارم کے ذریے آپ مسائل کو رکن مالک کے تعاون سے ختم کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کے اجلاس ہوتے رہتے ہیں آپ اپنے مسائل کو ان اجلاس میں لے کر ڈسکس کر سکتے ہیں ، ماضی میں بھی پاکستان نے 2015 میں کشمیری ایشو بناتے ہوئے 61ویں دولت مشترکہ کا اجلاس ملتوی کر دیا تھا ۔ان پلیٹ فارم کے ذریعے آپ کی آواز عالمی سطح پر جاتی ہے، اس طرح آپ مزید فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو آپ اپنی خارجہ پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے رکن ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرتے ہوئے بہتر کر سکتے ہیں، مختصر یہ کہ یہ پلیٹ فارم سیاسی اور معاشی استعکام کے لیے عالمی سطح پر یہ بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں”۔
اس حوالے سے محمد بلال کا ماننا ہے کہ ” کتنے ممالک ہیں جو دولت مشترکہ کا تمغہ سجانے کے بغیر ہی ہمارے ساتھ تعاون کر رہے ہیں جیسے کہ سعودی عرب۔ تو اگر ہم ذہنی طور پر آزاد نہیں ہوں گے تو ہم ہمیشہ انہی پر ہی انحصار کریں گے، اس غلامی کے تمغے کے بغیر بھی دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کو بڑھایا جا سکتا ہے”۔
اب یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان نے علامتی غلامی یعنی کامن ویلتھ سے علیحدگی کے بعد دوبارہ شمولیت عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا اور اپنی بین الاقوامی شناخت کو مستحکم کرنے کے لیے کی۔ اس کے علاوہ تنظیم کے رکن کے طور پر معاشی، تعلیمی اور تکنیکی فوائد حاصل کرنا بھی ایک اہم وجہ تھی۔ یہ فیصلہ ملکی مفاد اور عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو مضبوط کرنے کی حکمت عملی کے لیے کیا گیا لیکن کیا یہ فیصلہ اتنا کارگر ثابت ہوا جتنی توقع تھی؟ اس کا فیصلہ وقت آنے پر ہو جائے گا۔