برطانوی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملک کے جمہوری نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کے تحت 16 اور 17 سالہ نوجوانوں کو تمام انتخابات میں ووٹ دینے کا حق دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق حکومت کا کہنا ہے کہ یہ مجوزہ تبدیلیاں عوام کے جمہوریت پر اعتماد کو بڑھانے کی کوشش کا حصہ ہیں اور ان سے برطانیہ بھر میں ووٹنگ کے حقوق میں یکسانیت آئے گی، کیونکہ اسکاٹ لینڈ اور ویلز میں نوجوان پہلے ہی علاقائی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔
وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے آئی ٹی وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جب وہ کام کرنے کے قابل ہیں، جب وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں، تو میرا خیال ہے کہ اگر آپ حصہ ڈال رہے ہیں، تو آپ کو یہ حق ہونا چاہیے کہ آپ اپنی رائے دے سکیں کہ آپ کا پیسہ کہاں خرچ ہو، حکومت کس سمت جائے۔
عالمی سطح پر بیشتر ممالک میں ووٹنگ کی عمر 18 سال ہے، تاہم گزشتہ سال یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں یورپی یونین کے رکن ممالک کو 16 سال کی عمر سے ووٹنگ کی اجازت دینے کا اختیار دیا گیا، جسے جرمنی، بیلجیم، آسٹریا اور مالٹا نے اپنایا۔
برطانیہ میں اس تبدیلی کے لیے پارلیمانی منظوری درکار ہوگی، لیکن اس میں رکاوٹ کا امکان کم ہے کیونکہ یہ پالیسی اسٹارمر کی گزشتہ سال کی انتخابی مہم کا حصہ تھی، جس میں انہیں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی۔

تاہم اقتدار سنبھالنے کے بعد اقتصادی مشکلات اور چند سیاسی غلطیوں کی وجہ سے اسٹارمر کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہےاور حالیہ رائے عامہ کے سروے میں ان کی لیبر پارٹی، نائیجل فراج کی دائیں بازو کی جماعت ریفارم یوکے سے پیچھے ہے۔
آئی ٹی وی نیوز کے لیے مرلن اسٹریٹیجی کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق، 500 سولہ اور سترہ سالہ نوجوانوں میں سے33فیصد نے کہا وہ لیبر کو ووٹ دیں گے،20فیصد ریفارم کو 18فیصد گرین پارٹی کو،12فیصد لبرل ڈیموکریٹس کواور 10 فیصد کنزرویٹو پارٹی کو ووٹ دیں گے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں اس وقت 16 اور 17 سالہ نوجوانوں کی تعداد تقریباً 16 لاکھ ہے، جب کہ گزشتہ عام انتخابات میں 4 کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد ووٹ ڈالنے کے اہل تھے، تاہم ووٹر ٹرن آؤٹ 2001 کے بعد سے کم ترین سطح پر آ گیا تھا۔ اگلے انتخابات 2029 میں متوقع ہیں۔
کنزرویٹو پارٹی، جو اب پارلیمان کی دوسری بڑی جماعت ہے اور اقتدار سے محروم ہونے کے بعد مزید تنزلی کا شکار ہے، نے ان اصلاحات کو “عجلت میں کیا گیا فیصلہ” قرار دیا ہے۔ پارٹی کا مؤقف ہے کہ ان پر مناسب مشاورت نہیں کی گئی اور یہ نوجوانوں کے لیے تضادات سے بھرپور پالیسی ہے۔
مزید پرھیں:برطانوی حکومت نے ’یوتھ گارنٹی‘ منصوبہ شروع کردیا، یہ کیا ہے؟
کنزرویٹو رکن پارلیمنٹ اور کمیونٹی امور کے ترجمان پال ہومز نے کہاکہ سولہ سالہ نوجوان انتخاب میں ووٹ تو دے سکیں گے، لیکن امیدوار نہیں بن سکیں گے۔ وہ ووٹ دے سکیں گے لیکن لاٹری کا ٹکٹ نہیں خرید سکیں گے، نہ شراب پی سکیں گے، نہ شادی کر سکیں گے اور نہ جنگ میں حصہ لے سکیں گے۔ یہ پالیسی مکمل طور پر الجھن کا شکار ہے۔
دیگر ممالک سے حاصل شدہ تحقیقی رپورٹس کے مطابق ووٹنگ کی عمر کم کرنے سے انتخابی نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑا، تاہم 16 سال کی عمر میں ووٹنگ کے اہل ہونے والے نوجوانوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح 18 سال کے مقابلے میں زیادہ رہی۔