چین نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ مغربی طاقتوں کی “طاقت کی سیاست” کے خلاف ایرانی مزاحمت کی حمایت جاری رکھے گا۔ اس اعلان نے نہ صرف مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید اجاگر کیا ہے بلکہ اس سے عالمی سیاست میں ایشیائی محور کی نئی سمت کی تصویر بھی سامنے آ گئی ہے۔ کیا یہ مغربی پابندیوں کے خلاف ایشیائی جواب ہے؟ آئیے ایک ساتھ صورتحال کی گہرائی میں جائیں۔
اس وقت عالمی منظرنامے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع کشیدگی سے باہر آ کر سفارتی محاذ پر آگیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کیے، جن کے نتیجے میں ایران نے ہرموز کی تنگی بند کرنے کا بھی اشارہ دیا۔ چین نے ان حملوں کی “بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا اور یہ واضح کیا کہ وہ طاقت اور دھمکی کے بجائے مذاکرات اور سیاسی حل پر یقین رکھتا ہے۔
عین اسی دوران، چین کی سرکاری وزارتِ خارجہ اور سفارتی عہدیداروں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ایران کی قومی خودمختاری اور وقار کے دفاع میں کھڑا ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے تہران کے نمائندے کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ “چین طاقت کی سیاست یا دھمکی کو قبول نہیں کرتا اور مذاکرات کو فروغ دیتا ہے”۔
اسی کشیدگی والے پس منظر میں چین میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس میں ایران اور روس کے وزرائے دفاع نے شرکت کی۔ چین نے اس اجلاس میں مغربی عسکری اتحادوں کے خلاف متوازن حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے، اپنی سفارتی صورت میں خود کو عالمی استحکام کا رکن ہونے کی پوزیشن میں رکھا۔
تمام تر پیش رفت کو مل کر دیکھیں تو ایک واضح تصویر سامنے آتی ہے، چین گہری اقتصادی اور تیل کی تعلقات کے باوجود مستقیم مداخلت کرنے کی بجائے، ایک توازن کی صورت اختیار کر رہا ہے، جہاں وہ ایران کو تحفظ دینے کا اعلان کرتا ہے لیکن فوجی طور پر ملوث ہونے سے گریز کرتا ہے۔

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے عالمی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر فرحان مسعود کہتے ہیں کہ “چین ایران کو صرف ایک اہم تیل کا سپلائر سمجھتا ہے۔ تاہم اس اعلان سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ بیجنگ مغربی تسلط کے ماڈل کو چیلنج کرنا چاہتا ہے اور یہ خطے میں ایک نئے طاقت ور محور کی جانب بڑھنے کی علامت ہے۔ یہ پابندیوں کے خلاف بالواسطہ سیاسی ردعمل ہے، لیکن براہِ راست جنگ میں ملوث ہونے سے اجتناب کرتا ہے۔
دوسری جانب تجزیہ کار و اقتصادی ماہر ثناء علی نے کہاکہ یہ اقدام مغربی پابندیوں کے رد عمل میں جزوی رویہ ہے، چین نے ایران کے خلاف پابندیوں کو غیر قانونی قرار دیا، مذاکرات کی رہ پر زور دیا اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں ایرانی نمائندوں کو مدعو کیا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ چین نے تیل، انفراسٹرکچر اور نقل و حمل میں سرمایہ کاری کو بھی مضبوط کیا، جس سے بین الاقوامی طاقتوں کے سامنے ایران کو استحکام دینے کا پیغام گیا۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سفارتی امور کی ماہر ڈاکٹر امینہ رشید کہتی ہیں کہ چین شاید براہِ راست مغربی پابندیوں کا جواب نہ دے رہا ہو، لیکن اسے علم ہے کہ عالمی نظام میں امریکی سخت موقف کے بعد ایشیا کو بطور مقابل محور فروغ دینا ضروری ہے۔ اس طرح چین اپنی پالیسی کو طاقت کی سیاست نہیں بلکہ ساکھ اور تعاون کے ذریعے مؤثر ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق چین کی حمایت اگرچہ ایران کے قریب ہے، مگر یہ براہِ راست عسکری یا اقتصادی بلاک بنانے کی سیاست سے مختلف ہے۔ اس میں مغربی طاقتوں کے خلاف نمکینی پن ضرور ہے، لیکن اس کی توجہ زیادہ تر سیاسی اثر، اقتصادی رابطوں اور سفارتی توازن پر ہے۔
اگرچہ چین ایران کے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور دونوں کے درمیان 25 سالہ تعاون کا معاہدہ ہے، لیکن پالیسی سازی اور طاقت کے مظاہرے میں محتاط رویہ رکھا گیا ہے۔ چین مغربی پابندیوں کے نظام کو چیلنج کر رہا ہے، مگر اس کا مقصد جنگی محاذ کھولنا نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین اور مذاکرات کی نئی شکل بنانا ہے۔

یہ منظرنامہ اس حوالہ سے بھی معنی خیز ہے کہ عالمی طاقتیں دوبارہ ترتیب پا رہی ہیں۔ چین اس میدان میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ مغربی طاقتوں کی بے روک ٹوک طاقت میں چناؤ کے برعکس، وہ اصول پر چلنے والی سیاست پر یقین رکھتا ہے۔ ایران کی مزاحمت کی حمایت کا یہ اعلان بوجوہ تزویراتی توازن، اقتصادی وابستگی اور سفارتی تصاویر کو یکجا کرتا ہے۔
یہ آپ سے سوال کرتا ہے، کیا چین اس اعلان کے ذریعے نہ صرف مغربی پابندیوں کا رد عمل دے رہا ہے بلکہ مستقبل کی عالمی طاقتوں کی تقسیم میں خود کو ایک متوازن کھلاڑی بنانے کی کوشش بھی کر رہا ہے؟
مزید پڑھیں:اسرائیل کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کے ساتھ کو بھلایا نہیں جاسکتا، ایران
چنانچہ اس صورت حال میں چین کا موقف بظاہر ایران کی حمایت ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک پیچیدہ عالمی کھیل کا کردار ہے، ایک ایسا کردار جو مغربی ایک طرفہ پن کے خلاف سیاسی اور اقتصادی بیلنس کی نمائندگی کرتا ہے۔