Follw Us on:

عوام، تاجر اور سیاسی جماعتیں سراپا احتجاج: ’حکومت کی ناکام پالیسیاں سڑکوں پر لے آئی‘

زین اختر
زین اختر
Whatsapp image 2025 07 20 at 23.18.10
عوام، تاجر اور سیاسی جماعتیں سراپہ احتجاج، ہیں ( فائل فوٹو)

پاکستان کی گلیوں سے لاہور، کراچی، اسلام آباد تک ایک ہی درد کی آواز بلند ہو رہی ہے، عوام، تاجر اور سیاسی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں اور سوال یہی ہے کہ کیا حکومت کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔

پچھلے ہفتے زمینی حقائق نے ایک نئی تصویر بنائی ہے، جب تاجر فیاض مارکیٹ، راولپنڈی اور کراچی کی چیمبر آف کامرس مارکیٹوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال پر بیٹھے۔ ہر طرف ہر نعرہ صدائے احتجاج میں بدل گیا۔

مہنگائی نے چھت چھو لی تھی، بجلی، گیس، پٹرول کے نرخ اس قدر بڑھ چکے تھے کہ چھوٹا تاجر اب رکنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ عوام کے لیے روزمرہ زندگی سہولیات سے خالی ہو چکی تھی اور حالات نے ایک نئے اضطراب کو جنم دے دیا۔

اسی دوران سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے کارکنوں کو نعرے بازی کے لیے میدان میں اتارا۔ پاکستان تحریک انصاف نے “کر یا مر” تحریک کا اعلان کیا، جلسے اور جلوس ملک کے چاروں صوبوں میں ہوئے۔ اس تحریک نے حکومت کے خلاف شدید سیاسی دباؤ پیدا کیا اور حکومت نے اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئی وفاقی کانسٹیبلری بنانے کا اعلان کر دیا، جسے بہت سے ناقدین احتجاج دبانے کی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ آن لائن احتجاج بھی تیز ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر پاکستانی عوام نے صرف غصہ یا نعرہ بازی نہیں کی بلکہ شعور کے ساتھ سوال اٹھائے۔ ہر پوسٹ، ہر ٹویٹ، ایک چیخ بن گئی جو حکومت کے ایوانوں تک گونجی۔ ہر شہری میں بے چینی عیاں تھی اور ہر تاجر نے سکیورٹی اداروں کے اعلان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ گلی سے اسکرین تک، سڑک سے اسٹیٹس تک، ایک اجتماعی بے زاری کا اظہار ہونے لگا۔

پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے معاشی ماہر ڈاکٹر نعمان قریشی کہتے ہیں کہ جب عوام، تاجر اور سماجی گروپ سب ایک آواز میں احتجاج کر رہے ہوں، تو یہ صرف ایک شدید اقتصادی مسئلے کی علامت نہیں، بلکہ ایک ممکنہ سیاسی انقلاب کی بنیاد ہوتا ہے۔

ان کے مطابق مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن نے اس وقت معاشرے کا توازن ہلا کر رکھ دیا ہےاور ایسے میں حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں نے عوام کو سڑک پر لے آیا ہے۔

Pti protest

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے پولیٹیکل تجزیہ کار ڈاکٹر زرغار اقبال کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے کانسٹیبلری بنا کر احتجاج روکنے کی کوشش کی ہے، تو یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وہ الٹی گنتی شروع ہو جانے کا خوف رکھتی ہے۔

ان کے مطابق سیاست میں طاقت اب اسمبلیوں میں نہیں، سڑک پر بنتی ہے۔ جب عوام متحد ہوں، تو کوئی قوت انہیں روک نہیں سکتی۔ سڑک پر نکلا ہوا ایک تاجر، ایک طالبعلم، ایک مزدور، سب مل کر ایک نیا سیاسی منظرنامہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سماجی قانون دان فاطمہ یوسف کہتی ہیں کہ احتجاج صرف شور نہیں بلکہ حق کا مطالبہ ہے۔ اگر عوام کو پرامن احتجاج کا حق نہ دیا گیا، تو وہ عدالتی یا پارلیمانی راستہ اختیار کریں گے، اور اس سے حکومت کے خلاف گنتی کا عمل اور تیز ہو جائے گا۔ ان کے مطابق پاکستانی عوام اب صرف مہنگائی پر بات نہیں کر رہے بلکہ وہ اپنے جمہوری حق، اپنے وقار اور زندگی کے معیار پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

یہ ساری کہانی ایک پیچیدہ مگر واضح منظر پیش کرتی ہے۔ احتجاج اب صرف ایک فیس بک کمنٹ یا جلسے کی تقریر نہیں، بلکہ یہ ایک عوامی جذبہ ہے، ایک تاجر کی بے قراری ہے، سیاسی جماعتوں کا اضطراب ہے، اور ایک پرسکون مگر فیصلہ کن بغاوت کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔

حکومت کے لیے اب وقت کم اور فیصلے بڑے ہو گئے ہیں۔ اسے سنجیدگی سے عوام کی آواز سننی ہوگی۔ صرف وعدوں سے، صرف ٹی وی پر بیانات سے یا سوشل میڈیا پر وضاحتوں سے کام نہیں چلے گا۔ اسے مہنگائی کے حل کی طرف عملی قدم بڑھانا ہوگا۔ بجلی، گیس، پٹرول کے بلوں پر نظرثانی، کاروباری اوقات میں نرمی، اور عوام کے ساتھ کھلے مذاکرات ہی ایک ممکنہ حل ہو سکتے ہیں۔

Protest ji

اگر ایسا نہ ہوا، تو یہ احتجاج ایک تحریک بن سکتا ہے۔ اور یہ تحریک اگر ایک رخ پر چل پڑی، تو پھر حکومت کے لیے نہ صرف گنتی کا آغاز ہوگا، بلکہ وہ گھنٹی بھی بج جائے گی جو حکمرانوں کو بیدار تو کرتی ہے، مگر اکثر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں:مہنگائی کے خلاف جماعت اسلامی کے مظاہرے: ’حکومت عوام پر رحم کرے

اب یہ حکومت پر ہے کہ وہ کب آنکھ کھولتی ہے، اور کب اس عوامی چیخ کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔ کیونکہ اس بار آواز صرف احتجاج کی نہیں، بلکہ تبدیلی کی ہے۔

Author

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس