غزہ میں گزشتہ ڈیڑھ برس سے جاری ظلم و بربریت میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، خاص طور پر ان صحافیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا جو اسرائیل کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لا رہے تھے۔ اس صورتحال میں وہاں کے بچوں نے اپنی کہانی بیان کرنے کا ایک منفرد انداز اختیار کیا ہے ، وہ ڈرائنگز کے ذریعے دنیا کو بتا رہے ہیں کہ فلسطین میں ان پر کس طرح ظلم کیا جا رہا ہے۔
امریکی آرٹ ٹیچر ہیدر لیٹن نے غزہ میں مقیم تین کم عمر بچیوں سے رابطہ قائم رکھا اور ان کی آواز عالمی سطح پر بلند کی۔ روزانہ رابطے اور فن پاروں کی تخلیق کے دوران انہیں بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہیدر لیٹن نے ان بچیوں کو ناقابل یقین حد تک بہادر اور دلیر قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بچیاں تمام تر مشکلات کے باوجود فن تخلیق کر رہی ہیں اور اپنی ہولناک کہانی دنیا کو سنا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا، وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں ‘ہم یہاں مر رہے ہیں، براہِ کرم ہمیں دیکھیں، ہماری طرف توجہ دیں۔ براہ کرم ہمیں بچائیں۔ یہ سب کچھ روک دیں۔’
ہیدر لیٹن نے کہا کہ سب سے بڑا المیہ یہ ہوگا کہ ان بچیوں کی کہانی صرف اس لیے نہ سنائی جائے کہ کسی کو سن کر تکلیف ہوتی ہے۔ انہوں نے پختہ عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے مکمل طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں ان کی کہانیوں میں ترمیم نہیں کروں گی۔ ان کی کہانیاں بالکل ویسے ہی سناؤں گی جیسے وہ خود سنا رہی ہیں۔
مزید پڑھیں:خوراک ہے نہ پانی، غزہ میں مزید بچے جان کی بازی ہار گئے
انہوں نے بتایا کہ اس پراجیکٹ پر چار انتہائی ذہین خواتین کام کر رہی ہیں، باوجود اس کے کہ ہر چیز ان کے خلاف ہے۔ زبان سب سے بڑا چیلنج تھا کیونکہ وہ عربی بولتی ہیں اور ہیدر نہیں، لیکن خوش قسمتی سے ان کے والد ایک ماہر مترجم ہیں جنہوں نے صبر اور سخاوت سے بھرپور تعاون کیا۔ ہیدر لیٹن نے کہا کہ درحقیقت تصاویر نے ہمیں بچایا ہے، کیونکہ وہ براہ راست اظہار کا ذریعہ ہیں۔