اٹھائیس ممالک نے اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ تو کیا ہے لیکن ان کی اسرائیل کے ساتھ اربوں ڈالر کی تجارت بھی مسلسل جاری ہے۔
ان ممالک میں برطانیہ فرانس جاپان اور نیدرلینڈز جیسے ممالک شامل ہیں جو ایک طرف اسرائیل پر امدادی رکاوٹوں اور شہری ہلاکتوں کا الزام لگاتے ہیں اور دوسری طرف اس کے ساتھ تجارتی روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
برطانیہ نے 2023 میں اسرائیل سے دو ارب 10 کروڑ ڈالر کی درآمدات کیں اور اسے ایک ارب 85 کروڑ ڈالر کی برآمدات کیں، فرانس کی درآمدات ایک ارب 30 کروڑ ڈالر اور برآمدات ایک ارب 91 کروڑ ڈالر رہیں. جاپان نے ایک ارب 34 کروڑ ڈالر کی درآمدات اور ایک ارب ارب 44 کروڑ ڈالر کی برآمدات کیں۔

اسی طرح نیدرلینڈز نے 2 ارب 8 لاکھ ڈالر کی اشیاء اسرائیل سے منگوائیں اور اسے 1 ارب 72 کروڑ ڈالر کی اشیاء فراہم کیں۔
واضع رہے کہ ان ملکوں نے حالیہ مشترکہ بیان میں اسرائیل سے غزہ میں جاری فوجی کارروائی فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ غزہ کی جنگ کو اب ختم ہونا چاہیے۔
بیان ان 28 ممالک کے وزرائے خارجہ نے جاری کیا جن میں آسٹریلیا آسٹریا بیلجیم کینیڈا قبرص ڈنمارک ایسٹونیا فن لینڈ فرانس یونان آئس لینڈ آئرلینڈ اٹلی جاپان لٹویا لتھوانیا لکسمبرگ مالٹا نیدرلینڈز نیوزی لینڈ ناروے پولینڈ پرتگال سلووینیا اسپین سویڈن سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ شامل ہیں
وزرائے خارجہ نے الزام لگایا کہ اسرائیلی حکومت امدادی سامان کی ترسیل روک رہی ہے اور شہری ہلاکتوں کی ذمہ دار ہے ان کے مطابق اسرائیل کا امدادی ماڈل خطرناک ہے اور انسانی وقار کو پامال کرتا ہے۔ وہ عالمی انسانی قوانین کی پاسداری کرے اور امداد پر عائد تمام پابندیاں فوری ختم کرے۔

ممالک نے اسرائیل کے اس منصوبے کی بھی مخالفت کی جس میں فلسطینیوں کو رفاع کے ایک محصور زون میں منتقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے یہ منصوبہ ان کے مطابق مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔
بیان میں مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور فلسطینیوں پر بڑھتے ہوئے تشدد پر بھی تشویش ظاہر کی گئی اور کہا گیا کہ یہ سب کچھ فوری طور پر بند کیا جانا چاہیے۔
ان میں سے نو ممالک فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم بھی کر چکے ہیں جن میں قبرص مالٹا پولینڈ آئس لینڈ سویڈن آئرلینڈ ناروے سلووینیا اور اسپین شامل ہیں۔
حماس کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل نے وہ پیشکش مسترد کی ہے جس کے تحت تمام یرغمالیوں کی رہائی ممکن تھی ان کے مطابق اسرائیلی حکومت ان قیدیوں میں دلچسپی نہیں رکھتی کیونکہ وہ فوجی ہیں۔
مزید پڑھیں: غزہ میں بھوک نے مزید 10 بچوں کی جان لے لی، 24 گھنٹوں میں تعداد 111 ہوگئی
حماس کا کہنا ہے کہ وہ ایسی ڈیل چاہتی ہے جس میں جنگ بندی اسرائیلی فوج کا انخلا اور مکمل امدادی رسائی شامل ہو۔ اس کے قبضے میں اب بھی 50 افراد موجود ہیں جن میں سے 20 کے قریب زندہ ہیں۔
اسرائیل نے کئی امدادی اشیاء غزہ میں داخل ہونے سے روک رکھی ہیں جن میں بچوں کا دودھ کھانے پینے کی اشیاء پانی صاف کرنے والے فلٹرز اور دوائیں شامل ہیں۔
امدادی ادارے ان پابندیوں کو اجتماعی سزا اور عالمی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں اور خبردار کرتے ہیں کہ غزہ کا صحت کا نظام مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر ہے۔