پاکستان میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں متواتر اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو وہیں شرح سود مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے، گزشتہ روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں مزید ایک فیصد کمی کا اعلان کیا گیا، یہ نئے مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں ہونے والی چھٹی کمی تھی جس کے بعد اب شرح سود 12 فیصد پر آگئی ہے، جون 2024ء سے اب تک مجموعی طور پر شرح سود میں 10 فیصد کی کمی ہو چکی ہے۔
حکام کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ مہنگائی کے سدِباب کے لئے شرح سود میں احتیاط سے کمی کی گئی ہے اور اس کمی سے زرِ مبادلہ ذخائر میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہ سرخی میں افراط زر نیچے کی طرف بڑھ رہا ہے، عالمی اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور ممکنہ توانائی کے ٹیرف ایڈجسٹمنٹ جیسے خطرات بدستور موجود ہیں، تاہم بنیادی افراط زر بلند رہتا ہے جس کی وجہ سے مرکزی بینک محتاط رویہ اپناتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ استحکام سے پہلے مختصر مدت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ مالی سال 25 کے لیے افراط زر اوسطاً 5.5 سے 7.5 فیصد کے درمیان رہے گا، کمزور زرعی کارکردگی کی وجہ سے اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 0.9 فیصد رہی، جو توقعات سے قدرے کم ہے۔ بہتر مالیاتی نظم و ضبط کے باوجود، بنیادی توازن کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہونے کی امید ہے۔
جمیل احمد نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے نجی شعبے کے قرضوں میں اضافے کے ساتھ آٹوموبائلز، کھادوں اور پیٹرولیم مصنوعات کی زیادہ فروخت کا حوالہ دیتے ہوئے معاشی سرگرمیوں میں بتدریج بہتری کو بھی نوٹ کیا، بیرونی محاذ پر پاکستان نے دسمبر 2024 میں کرنٹ اکاؤنٹ میں 600 ملین ڈالر کا سرپلس پوسٹ کیا، جو کہ مضبوط ترسیلات زر اور برآمدی آمدنی، خاص طور پر ہائی ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سے حاصل ہونے والی آمدنی کے باعث ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے یہ بھی کہا کہ مالی سال 25 کی پہلی ششماہی کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس $1.2 بلین تک پہنچ گیا ہے، مرکزی بینک اس سال کے لیے جی ڈی پی کے 0.5 فیصد کے سرپلس اور خسارے کے درمیان کرنٹ اکاؤنٹ کے متوازن رہنے کی پیش گوئی کرتا ہے، تاہم چیلنجز باقی ہیں۔ اس سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس محصولات میں 26 فیصد اضافہ ہوا لیکن حکومت کے ہدف سے کم رہا، جس سے مالیاتی کارکردگی کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مہنگائی میں کمی کے اثرات عوام تک پہنچ رہے ہیں. پہلے جس شرح سے مہنگائی بڑھ رہی تھی. روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں بڑھ جاتی تھیں، جب کہ اب ایسا نہیں ہے، بالخصوص غذائی اشیا کی قیمتیں مستحکم ہیں. تاہم بعض اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کی قیمتیں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں، ہماری کوشش ہے کہ قیمتوں میں استحکام لایا جائے۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے شرح سود میں مسلسل کمی کے فیصلوں کے پیچھے معاشی بحالی ہے یا پھر کوئی خطرناک کھیل ہے؟ آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ شرح سود بھی کم ہو رہی ہے لیکن مہنگائی میں کیسے اضافہ ہوتا جا رہا ہے؟ کیا شرح سود میں کمی ایک جھانسہ تو نہیں؟
معاشی رہنما اور تاجر اس سوال پر اپنا اپنا نظریہ رکھتے ہیں، کچھ نے مثبت تو کچھ نے منفی پہلو اجاگر کیے ہیں، کچھ نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں کی گئی کمی ایک خوش آئند فیصلہ ہے جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا، کچھ نے اسے معاشی ترقی کی جانب پہلا قدم قرار دیا ہے تو کچھ نے اسے فقط ایک چال قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا فائدہ حکومت اور تاجروں کو ہوگا مگر عام عوام کو نہیں ہو گا، مہنگائی میں کوئی کمی نہیں آنی، بجلی اور گیس کے بل کم نہیں ہونے، البتہ شرح سود کی کمی سے منافع ضرور کم ہوا ہے۔
حکومت اپنے فیصلوں سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے میں لگی ہے مگر شاید عوام کو درپیش مسائل دیکھنے سے قاصر ہے۔
جامعہ پنجاب کے شعبہ معاشیات کے سابق ڈین پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور چودھری نے ‘پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “اسٹیٹ بینک جب بھی شرح سود میں کمی کرتا ہے تو معاشیات کی زبان میں اس کا فائدہ یہ ہونا چاہیے کہ سرمایہ کاری بڑھ جائے، جب سرمایہ کاری بڑھتی ہے تو بے روزگاری اور غربت کم ہوتی ہے”۔
یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ معاشیات کی پروفیسر ماہین امبر نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کی جانب سے کی گئی شرح سود میں کمی کے عوامی اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ” شرح سود میں مزید کمی سے قرضوں پر سود کی شرح کم ہوگی جس سے کاروباری افراد اور عام شہریوں کے لیے بینکوں سے قرض لینا آسان ہو گا۔ یہ کمی چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے فروغ میں کردار ادا کرے گی۔ یہ کمی روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوگی”۔
ڈاکٹر ممتاز انور نے شرح سود کی کمی کے مستقبل میں معاشی اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “ممکنہ طور پر تو یہ فیصلہ ٹھیک لگتا ہے، اس وقت معیشت کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت عوام کی زندگیوں میں آسانی لانے کے لیے سرمایہ کاری کا زیادہ ہونا بہت ضروری ہے تا کہ لوگوں کو روزگار ملے اور معاشی فروغ ملے”۔
اس حوالے سے پروفیسر ماہین امبر نے کہا کہ ” شرح سود میں کمی سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی کیونکہ سرمایہ کاروں کے لیے قرض لینا قدرے آسان ہو گا۔ تاہم اگر اس اقدام کے ساتھ مہنگائی پر قابو نہ پایا گیا تو افراط زر بڑھنے کا خدشہ ہو سکتا ہے جو معاشی استحکام کو متاثر کر سکتا ہے”۔

ڈاکٹر ممتاز نے شرح سود میں کمی کے فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ فیصلہ دانشمندانہ ہے لیکن اگر کاروباری سہولیات مہیا نہیں کی جائیں گی تو اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو گا”۔
دوسری جانب پروفیسر ماہین امبر کا ماننا ہے کہ ” یہ فیصلہ جزوی طور پر دانشمندانہ ہے کیونکہ یہ کاروباری ماحول کو بہتر بنانے اور معیشت کو متحرک کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے طویل مدتی اثرات کا انحصار حکومتی پالیسیوں اور افراط زر پر قابو پانے کی حکمت عملی پر ہوگا”۔
ڈاکٹر ممتاز انور نے شرح سود میں کمی کے معاشی بحالی میں کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ “ملک میں کاروبار کرنے کی سہولیات اور معاون ماحول کا ہونا بھی ضروری ہے۔ صرف شرح سود کم کرنے سے کاروباری سرگرمیاں نہیں بڑھتی۔ مثال کے طور کے پر نئے کاروبار شروع کرنے کے مواقع اور لائسنس کے عمل کو آسان فہم کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے”۔
اس حوالے سے پروفیسر ماہین امبر کا خیال ہے کہ “اگر معیشت کی دیگر بنیادی کمزوریوں جیسے قرضوں کا بڑھتا بوجھ اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی پر قابو پایا جائے تب یہ معیشت کی بحالی کا اشارہ ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر یہ بحران کو مزید بڑھا سکتا ہے”۔
ڈاکٹر ممتاز نے شرح سود میں کمی کے مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ تعلق پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “جب ملک میں نئے کاروبار مواقع ہوں گے، لائسنس کا عمل آسان ہو گا، اور کاروباری کرنے کی سہولیات کو مدِنظر رکھتے ہوئے شرح سود کو کم کیا جائے گا تب ہی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے چٹکارا ممکن ہو سکے گا۔ صرف شرح سود کم کر دینے سے نہ تو مہنگائی کم ہو گی اور نہ ہی بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا”۔
دوسری جانب پروفیسر ماہین نزدیک ” شرح سود میں کمی سے کاروباری افراد کو سرمایہ کاری کے مواقع میسر آئیں گے جس سے روزگار پیدا ہونے کی امید ہے۔ تاہم اگر مہنگائی کی شرح کو قابو میں نہ رکھا گیا تو عوام کو اس اقدام کا فوری فائدہ حاصل نہیں ہوگا اور قیمتوں میں اضافہ جاری رہے گا”۔
شرح سود میں کمی ایک ایسا اقدام ہے جو معیشت کو متحرک کر سکتا ہے اور سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔ اس سے روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں لیکن اس کا انحصار حکومت کی دیگر پالیسیوں پر ہوگا۔ اگرچہ یہ فیصلہ معیشت کی بحالی کا اشارہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن مہنگائی پر قابو پائے بغیر اس کے فوائد محدود رہیں گے۔ اس اقدام کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ قرضوں کا بوجھ اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی جیسے مالیاتی و اقتصادی مسائل پر توجہ دی جائے۔ مجموعی طور پر یہ فیصلہ معیشت کو ایک درست سمت دینے کی کوشش ہے لیکن اس کے طویل مدتی اثرات پالیسی کے نفاذ اور عمل درآمد پر منحصر ہیں۔