کوہستان کے علاقے پالس میں تقریباً تین دہائیوں قبل لاپتہ ہونے والے ایک گھڑسوار کی لاش اچانک برف سے برآمد ہو گئی، جس نے نہ صرف مقامی لوگوں کو حیران کر دیا بلکہ برسوں سے زیرِ گردش کہانیوں کو بھی حقیقت میں بدل دیا۔
متوفی کی شناخت نصیرالدین ولد بہرام کے طور پر ہوئی ہے جو 1997 میں 33 برس کی عمر میں پہاڑوں کی طرف روانہ ہوا تھا اور اس کے بعد سے لاپتہ تھا۔
واقعے کے وقت اس کا چھوٹا بھائی کثیرالدین بھی اس کے ہمراہ تھا جو معجزاتی طور پر بچ گیا۔
مقامی روایات کے مطابق، نصیرالدین ایک تنگ درے سے گزر رہا تھا جب اس کا گھوڑا گلیشیئر کی تہہ میں چھپے ایک گڑھے میں گر گیا اور وہ خود بھی اس کے ساتھ لاپتہ ہو گیا۔
دو اگست کو ایک مقامی چرواہے کو برف پر کوئی چیز پڑی دکھائی دی۔ قریب جا کر پتہ چلا کہ وہ ایک انسانی لاش ہے جس کے جسم پر واسکٹ اور کپڑے بھی موجود تھے۔ جیب سے شناختی کارڈ برآمد ہوا، جس کی مدد سے اس کی شناخت ممکن ہوئی۔ اطلاع ملنے پر نصیرالدین کا بھائی کثیرالدین فوری طور پر لیدی گاؤں پہنچا اور لاش کو تحویل میں لیا۔

پولیس کے مطابق، اس وقت مختلف افواہیں گردش کرتی رہیں کہ شاید نصیرالدین کو دشمنی کی بنیاد پر دھکا دے کر قتل کیا گیا، تاہم واقعے کے وقت موجود افراد کی گواہی اور دیگر شواہد کے مطابق یہ ایک حادثہ تھا۔
ریسکیو حکام اور مقامی افراد کا کہنا ہے کہ لاش کی حیرت انگیز طور پر محفوظ حالت کی وجہ یہ ہے کہ وہ 28 سال تک برف کے نیچے دبی رہی، جس کے باعث لاش گلنے سڑنے سے بچ گئی۔
ماہرین کے مطابق برف میں دبی لاشوں میں بیکٹیریا غیر فعال ہو جاتے ہیں اور حشرات تک رسائی ممکن نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے جسم سلامت رہتا ہے۔
مزید جانیں: ایرانی صدر کی وزیراعظم ہاؤس میں آمد، چاق و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اگرچہ نصیرالدین کی لاش برآمد ہو چکی ہے، تاہم اس کے گھوڑے کا اب تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ ان کا خیال ہے کہ گھوڑا بھی ممکنہ طور پر برف تلے دبا ہوا ہو گا۔
لیدی گلیشیئر کے بارے میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ پگھل رہا ہے، اور غالباً یہی وجہ ہے کہ برسوں پرانی یہ لاش اب منظرِ عام پر آ سکی ہے۔ اس واقعے نے علاقے میں خوف و افسانے کا حصہ بننے والی ایک پرانی کہانی کو نئی زندگی دے دی ہے۔