1960 کی دہائی کا اختتام ہو چکا تھا۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر صنعتی خود انحصاری کے خواب دیکھ رہا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب ایک انوکھا اور منفرد خیال جنم لیتا ہے۔
یہ خیال ایک ایسی گاڑی کا تھا جو مکمل طور پر پاکستانی حالات کے لیے سازگار،سستی، پائیدار، اور مقامی ضروریات سے ہم آہنگ ہو۔
اس خیال کو حقیقت میں بدلنے کا ذمہ ہارون انڈسٹریز نے لیا، جو اُس وقت چیکوسلواکیہ سے اسکوڈا گاڑیاں اور زیٹور ٹریکٹرز درآمد کر رہی تھی۔ کمپنی نے فیصلہ کیا کہ اب پاکستان میں ہی گاڑیاں تیار کی جائیں گی۔
یوں 1969 میں Skoda Octavia کی بنیاد پر ایک نئی گاڑی کی تیاری شروع ہوئی۔
گاڑی کا بنیادی ڈھانچہ اور انجن پارٹس باہر سے درآمد کیے گئے، مگر باڈی کا ڈیزائن مکمل طور پر پاکستان میں تیار ہوا، جس میں فائبر گلاس استعمال کیا گیا تاکہ وزن کم اور قیمت مناسب رہے۔
مئی 1970 میں پہلی Skopak کراچی کی سڑکوں پر نمودار ہوئی ،ایک ہلکی پھلکی، کھلی باڈی والی پک اپ، جو نصف ٹن کا بوجھ اٹھا سکتی تھی، اور اگر ضرورت ہو تو 750 کلوگرام کا ٹریلر بھی کھینچ سکتی تھی۔
Skopak لمبائی تقریباً 4.2 میٹراور اونچائی 1.25 میٹر تھی۔ لیکن دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کی ونڈ شیلڈ فولڈ ہو جاتی تھی، اور گاڑی کی اونچائی مزید کم ہو کر صرف 1.1 میٹر رہ جاتی تھی، جس کا مطلب تھا کہ اسے تنگ راستوں سے با آسانی گزارا جا سکتا تھا۔

گاڑی کا انجن 1221 سی سی کا تھا، جس سے تقریباً 35 کلو واٹ کی طاقت حاصل ہوتی تھی۔ اس میں چار گیئرز تھے، اور یہ عام سڑکوں، کھیتوں، یا کچی پگڈنڈیوں پر بھی آرام سے چل سکتی تھی۔
اسکوپاک گاڑی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ پاکستان کے صارف کے لیے بنائی گئی تھی جو کہ سادہ، پائیدار، سستی مرمت والی جو شہر سے لے کر دیہاتوں میں آرام سے دوڑ سکتی تھی۔
لیکن بدقسمتی سےاس خواب کی عمر بہت مختصر ثابت ہوئی۔ 1971 میں پاکستان میں جنگ چھڑ گئی۔ حالات خراب ہو گئے اور چیکوسلواکیہ سے پرزہ جات کی ترسیل بند ہو گئی۔
معیشت دباؤ کا شکار ہوگئی اور ساتھ ہی Skopak کا پروجیکٹ بھی صرف ایک سال کے اندر ہی ختم ہوگیا۔ اس گاڑی کے کُل ملا کر 1400 یونٹ ہی تیار ہو پائے تھے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ریڈیٹ پر ایک صارف نے اس گاڑی کی چند تصویریں شیئر کیں، جنہیں صارفین نے بہت پسند کیا، جب کہ اکثر کو تو علم بھی نہیں تھا کہ ایسی کوئی گاڑی پاکستان کے ماضی کا حصہ تھی۔
ایک صارف نے لکھا کہ ہوسکتا ہے شاید اب بھی کسی خوش قسمت مالک کے پاس یہ گاڑی اس کے گیراج میں موجود ہو۔ اسی طرح ایک اور نے لکھامیں پہلی بار سن رہا ہوں کہ ایسا کوئی منصوبہ بھی تھا۔ایک اور صارف نے اس کی بناوٹ پر بات کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ملٹری جیپس سے کافی مشابہت رکھتی ہے۔
مزید پڑھیں: سوزوکی نے ایوری ماڈل پر 4 لاکھ 50 ہزار روپے کے کیش بونس کا اعلان کر دیا
یہ گاڑی شاید کامیاب ترین پاکستانی ماڈل نہ بن سکی، لیکن اس نے ایک قابلِ ذکر مثال قائم کی کہ اگر ارادہ ہو، تو پاکستان میں بھی گاڑیاں بن سکتی ہیں۔
اسکوپاک شاید اب کسی پرانی ورکشاپ میں پڑی ہو، لیکن یہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری کی پہلی جدوجہد کا نشان ہے۔ آج جب ہم جدید گاڑیوں، اسمبلرز اور مقامی کارخانوں کی بات کرتے ہیں تو Skopak کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہ محض ایک گاڑی نہیں تھی یہ خود انحصاری، مقامی جدت، اور ایک بہتر مستقبل کے خواب کی علامت تھی۔