انڈیا میں مودی حکومت کی قیادت میں سیاسی بیانیہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ برسراقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیرِ اثر قوم پرستی، ہندوتوا اور ’اکھنڈ بھارت‘ کا نظریہ مرکزی سیاسی ایجنڈے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
حالیہ پاکستان-انڈیا جنگ کے بعد انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف بھڑکتی نفرت اور کشمیری مسلمانوں پر انڈیا میں ہونے والے مظالم نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ماہرین اور ناقدین اس سوال پر شدید بحث کر رہے ہیں کہ کیا اس نظریے کی پیش قدمی کے ساتھ ہی سیکولر انڈیا کا وجود زوال پذیر ہو چکا ہے؟
انڈیا کا آئین 1950 میں نافذ ہوا تو اس کی بنیاد جمہوریت، مساوات اور سیکولرزم پر رکھی گئی تھی۔ آزادی کے بعد ایک ایسے ملک میں، جو مذہبی اور لسانی طور پر بے حد متنوع تھا، سیکولرزم کا اصول نہ صرف ضروری تھا بلکہ ریاست کے وجود کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا تھا۔
1976 میں آئین کے دیباچے میں باقاعدہ “سیکولر” کا لفظ شامل کیا گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تصور ابتدا ہی سے آئین اور ریاستی پالیسی کا حصہ رہا ہے۔ تاہم گزشتہ ایک دہائی کے دوران انڈیا کی سیاست اور ریاستی اقدامات میں ایسے رجحانات ابھر کر سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس سوال کو جنم دیا کہ کیا انڈیا اب بھی اس سیکولر اصول پر قائم ہے یا یہ محض کاغذوں تک محدود رہ گیا ہے۔
اکھنڈ بھارت یعنی “غیر منقسم بھارت” ایک نظریاتی تصور ہے، جو مہا بھارت کی سرحدوں تک کے انڈیا کو دوبارہ متحد دیکھنا چاہتا ہے۔ اس میں موجودہ انڈیا کے ساتھ پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، افغانستان اور یہاں تک کہ میانمار کے بعض حصے بھی شامل تصور کیے جاتے ہیں۔
بی جے پی کے رہنماؤں اور آر ایس ایس سے وابستہ حلقوں کی جانب سے اکھنڈ بھارت کے خواب کو بارہا عوامی سطح پر دہرایا گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں انڈین پارلیمنٹ کی عمارت میں ایک “اکھنڈ بھارت میپ” کی تنصیب، جس میں پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کو انڈیا کا حصہ دکھایا گیا، نے خطے میں شدید ردِ عمل پیدا کیا۔

آر ایس ایس سربراہ موہن بھگوت کا کہنا تھا کہ تقسیم ایک غیر فطری عمل تھا اور “اکھنڈ بھارت” حقیقی حقیقت ہے، یعنی انڈیا کا غیر منقسم ہونا ایک خواب نہیں بلکہ سچائی ہے۔
تجزیہ کار پروفیسر اجے نائر کا کہنا تھا کہ اکھنڈ بھارت کا تصور ایک غیر حقیقی خواب ہے، لیکن اس کے ذریعے اندرونی طور پر ایک قوم پرستانہ بیانیہ مضبوط کیا جا رہا ہے۔ اس کا اصل ہدف جغرافیہ سے زیادہ نظریاتی بالادستی ہے، جو انڈیا کے سیکولر آئینی تشخص سے متصادم ہے۔
انڈیا کا آئین، جو 1950 میں نافذ ہوا، خود کو ایک “سیکولر، جمہوری، خودمختار جمہوریہ” قرار دیتا ہے۔ لیکن موجودہ سیاسی منظرنامے میں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنانے، مذہبی آزادی کو محدود کرنے اور سیاسی اختلافات کو کچلنے کے واقعات نے آئینی سیکولرزم پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
انسانی حقوق کی ماہر ڈاکٹر شائستہ ایوب کہتی ہیں کہ مودی حکومت کے دوران سیکولرزم کو ایک ‘پرانا خیال’ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آئینی دفعات موجود ہیں، لیکن زمینی سطح پر ہندوتوا ایجنڈا ہی غالب دکھائی دیتا ہے۔
ہندوتوا ایک نظریاتی فریم ورک ہے، جو انڈیا کو ایک ہندو راشٹرا (ہندو ریاست) کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ بی جے پی اور اس کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) اسی فکر سے متاثر ہیں۔ یہ نظریہ انڈیا کے سیکولر آئین کے منافی تصور کیا جاتا ہے۔
سابق جج مارکنڈے کاجو کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ اگر انڈیا اپنے سیکولر کردار کو چھوڑتا ہے تو یہ نہ صرف آئینی خلاف ورزی ہو گی بلکہ یہ جمہوریت کے خاتمے کی طرف قدم ہوگا۔
اکھنڈ بھارت اور ہندوتوا بیانیے کے تناظر میں اقلیتوں کو نہ صرف سیاسی طور پر دیوار سے لگایا جا رہا ہے بلکہ مذہبی اور سماجی طور پر بھی ان کی جگہ محدود کی جا رہی ہے۔ گائے کے گوشت کے شبہ پر ہجومی تشدد، مدارس کی نگرانی، مساجد پر حملے اور حجاب پر پابندیاں اس کی مثالیں ہیں۔
تجزیہ کار اے جی نورانی نے اس نظریے کو “آر ایس ایس کی سلطنتی خواہشات” قرار دیتے ہوئے لکھا کہ آر ایس ایس ممالک کے خلاف نظریاتی حقائق کو ختم کرتے ہوئے انڈیا کو ایک برادری یا “بھائی” کے طور پر پیش کرتا ہے، جسے “چچا” یا “بھائی” کہا جاتا ہے۔

اکھنڈ بھارت کا تصور نہ صرف اندرونی طور پر خطرناک بیانیہ ہے بلکہ خطے میں انڈیا کے تعلقات بھی متاثر کر رہا ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کی حکومتوں نے اس نظریے پر سخت ردِ عمل دیا ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس نظریے کو “ہندوتوا کا اقتباس” اور جارحانہ عزائم کا مظہر قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کیا۔ دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ انڈیا کے پڑوسی ملکوں اور اپنے اندرونی اقلیتوں کے ثقافتی اور تاریخی تشخص کو دبانے کی کوشش ہے۔
امریکی ادارے فریڈم ہاؤس نے انڈیا کو “پارٹلی فری” قرار دیا، جب کہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے انڈیا کو مسلسل دوسرے سال “کنٹری آف پارٹیکولر کنثرن” کی فہرست میں ڈالنے کی سفارش کی۔
یورپی یونین، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بھی انڈیا کے سیکولر کردار پر خدشات کا اظہار کر چکے ہیں، تاہم انڈیا ان تنقیدوں کو “اندرونی معاملات میں مداخلت” قرار دے کر مسترد کرتا رہا ہے۔
انڈیا میں میڈیا، جو جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے، اب بڑی حد تک حکومتی بیانیے کا ترجمان بن چکا ہے، جس کا واضح ثبوت ہم نے حالیہ پاکستان-انڈیا جنگ میں دیکھا، جس میں میڈیا مکمل مودی حکومت کا پروپیگنڈہ پھیلا رہا تھا، جو کہ عالمی سطح پر جگ ہنسائی کا مؤجب بھی بنا۔ انڈیا میں اختلافی آوازیں یا تو دبائی جا رہی ہیں یا انہیں “ملک دشمن” قرار دیا جا رہا ہے۔
سینئر صحافی رنا ایوب کہتی ہیں کہ میڈیا اگر سوال نہ اٹھائے تو حکومت جواب دہ نہیں بنتی۔ افسوس کہ آج کا انڈین میڈیا حکومت کے چہرے پر نقاب بن چکا ہے، آئینہ نہیں۔
فریڈم آف پریس و میڈیا تنظیموں نے بھی اعتراض کیا کہ حکومت اس بیانیہ کو دفاعی طور پر استعمال کر رہی ہے، جب کہ آئینی اصول جیسے سیکولرزم کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، خاص طور پر جب “سوشلزم اور سیکولرزم” جیسے الفاظ پر غور ہورہا ہے۔

سیکولر انڈیا کی بقا اب ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ اگر آئین کی روح کو زندہ رکھنا ہے تو بی جے پی حکومت کو ہندوتوا بیانیے اور اکھنڈ بھارت جیسے نظریات سے پیچھے ہٹنا ہوگا۔
ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ مذہبی آزادی کا حقیقی تحفظ، فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث افراد کے خلاف غیر جانبدارانہ کارروائی، اقلیتوں کو مساوی سیاسی و سماجی حقوق، آئینی اداروں کی خودمختاری کی بحالی اور میڈیا اور عدلیہ کو آزاد کردار کی اجازت دینا انڈیا کے لیے نہایت ضروری ہے۔
مودی کا اکھنڈ بھارت نظریہ صرف ایک جغرافیائی خواب نہیں بلکہ انڈیا کی سیکولر روح کے لیے چیلنج ہے۔ اگر انڈیا کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر زندہ رہنا ہے تو اسے گاندھی، نہرو اور امبیڈکر کے انڈیا کی طرف لوٹنا ہوگا، ایک ایسے انڈیا کی طرف، جہاں ہر مذہب، ہر قوم اور ہر انسان کو برابری حاصل ہو۔