امریکی محکمہ زراعت کے مطابق یہ گوشت خورمکھی 1966 میں امریکا سے باضابطہ طور پر ختم ہونے کے بعد اب دوبارہ نمودار ہوئی ہے، جس سے صرف ٹیکساس کی معیشت کو 1.8 بلین ڈالرز کے نقصان کا خطرہ ہے۔ یہ وبا مویشیوں کی پیداوار میں کمی اور گوشت کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے پانچویں نسل کے رینچر کِپ ڈوو، جو 1973 میں صرف آٹھ سال کے تھے اس وبا کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب آخری بار یہ وبا پھیلی تھی تو وہ اپنے گھوڑے کے ساتھ بیماری سے مرنے والے جانور تک جاتے تھے۔ ان کے پاس ترش بو والی گاڑھی دوا کی بوتل اور ایک ریوالور ہوتا تھا تاکہ اگر کوئی بیمار جانور ٹھیک نا ہوسکے تو اسے ختم کیا جا سکے۔
میکسیکو کے وسطی علاقوں میں کئی دہائیوں بعد پہلی بار مویشیوں میں اس مکھی کے لاروے مل رہے ہیں۔ جب کہ پاناما میں واقع جراثیم سے پاک مکھیوں کی پیداوار کا کارخانہ مانگ پوری کرنے میں ناکام ہے۔ پاناما سٹی میں واقع عالمی شہرت یافتہ لیبارٹری ہفتہ وار 10 کروڑ تک جراثیم سے پاک مکھیوں کی پیداوار کرتی ہے، جنہیں ریڈی ایشن سے بانجھ بنا کر متاثرہ علاقوں میں چھوڑا جاتا ہے۔
امریکی محکمہ زراعت کے مطابق مکھیوں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے ہفتہ وار 50 کروڑ بانجھ مکھیوں کی ضرورت ہے، مگر پاناما کا پلانٹ صرف 10 کروڑ پیدا کر پا رہا ہےاور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ یہ مکھی دوبارہ امریکا میں داخل ہو جائے۔
میکسیکو کی ریاست چیپاس میں وبا تیزی سے بڑھ رہی ہے جہاں ہر ہفتے کیسز میں 10 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین اور مقامی حکام اس کا ایک سبب وسطی امریکا سے مویشیوں اور لوگوں کی غیر قانونی نقل و حرکت کو قرار دے رہے ہیں۔
امریکا نے مکھیوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے میکسیکو سے مویشیوں کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔ متاپا اورمیکسیکو میں نیا پیداواری پلانٹ بنایا جا رہا ہے، مگر اس کے فعال ہونے میں ایک سال لگے گا۔ اس دوران امریکی مویشی پال حضرات کیڑے مار ادویات ذخیرہ کر رہے ہیں اور ہنگامی منصوبے بنا رہے ہیں۔

اس وبا کا علاج سادہ مگر محنت طلب ہے، جس میں ہر لاروے کو ہاتھ سے نکال کر زخم پر دوا چھڑکنی پڑتی ہے۔ عمر رسیدہ رینچرز کا کہنا ہے کہ اب وہ 1973 کی طرح دن رات یہ کام نہیں کر سکتے۔
رائٹرز سے بات کرتے ہوئےجنوبی ٹیکساس کے ایل ساؤز رینچ کے مینیجر فریڈی نیٹو کا کہنا تھا کہ یہ شاید ہماری زندگی کا سب سے خطرناک حیاتیاتی بحران ہو سکتا ہے۔ شکاری سیاحت سے منسلک اربوں ڈالر کی صنعت بھی خطرے میں ہے کیونکہ جنگلی جانوروں کا علاج تقریباً ناممکن ہے۔
امریکا میں اسکریو ورم کی نگرانی اور علاج کے لیے ماہر گلہ بانوں کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مویشی پال حضرات کو روزانہ ہر زخمی جانور کا معائنہ کرنا ہوتا ہے مگر وسیع چراگاہوں اور گھنے جھاڑی دار علاقوں میں یہ کام انتہائی مشکل ہے۔
مزید پڑھیں: برطانیہ میں 82 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ’فلورس‘ نامی طوفان کی تباہی: ہوائی، زمینی اور بحری سفر معطل
مغربی ٹیکساس کے رینچر وارن کیوڈے کے مطابق وہ 50 سال بعد وہی تاریخ دوبارہ دہرا رہے ہیں۔ ان کے مطابق حکام نے پہلی بارآنے والی وبا سے کچھ نہیں سیکھا اور اب دوبارہ ہم اسی موڑ پر کھڑے ہیں۔
یاد رہے کہ 1972 سے 1976 تک ریاستہائے متحدہ امریکا میں اسکرو ورم کی وبا نے چھ ریاستوں میں ہزاروں مویشیوں کو متاثر کیا تھا۔ جس پر قابو پانے کے لیے کروڑوں ڈالرز خرچ کیے گئے تھے۔ لیکن اب دوبارہ اس وبا نے سر اٹھا لیا ہے، جس سے کسان پریشان ہیں۔
یہ وبا اسکریو ورم کی مادہ مکھی کی وجہ سے پھیلتی ہے، جو کسی بھی گرم خون والے جانور کے زخم میں سینکڑوں انڈے دیتی ہے۔ انڈے سے نکلنے والے لاروے اس جانور کا گوشت کھا کر زخم کو بڑھا دیتے ہیں، جب کہ علاج نہ ہونے پر جانور کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ معمولی خراش یا برانڈنگ کا نشان بھی چند دن میں کھلے زخم میں بدل سکتا ہے، جس میں درجنوں لاروے نشونما پاتے ہیں۔