خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور راولپنڈی میں اچانک شدید بارشوں نے تباہی مچادی، ان بارشوں اور سیلابی صورتحال سے کئی گھروں کو نقصان پہنچا اور سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار گئے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی تازہ رپورٹ کے مطابق رواں سال بارشوں اور مختلف حادثات کے باعث جاں بحق افراد کی تعداد تقریباً 700 ہوگئی ہے، جبکہ سینکڑوں لوگ زخمی اور لاپتہ ہیں۔
جانی نقصان کے علاوہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق بونیر کے علاوہ صوبے میں 339 گھروں کو مکمل یا جزوی نقصان پہنچا ہے، ایسا ہی ایک واقعہ راولپنڈی کے گاؤں سید پور میں ہوا جہاں سینکڑوں گھروں کو نقصان پہنچا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بارشوں میں شدت اور اس کے بعد سیلابی صورتحال ’کلاؤڈ برسٹ‘ کی وجہ سے ہورہی ہے، سائنسدانوں کے مطابق گرمی کی شدت سے پانی بخارات میں بدلتا ہے اور یہ بخارات فضا میں اوپر کی طرف اُڑنے لگتے ہیں۔ ان بخارات کی موجودگی سے ہوا میں توانائی پیدا ہوتی ہے کیونکہ گرم ہوا میں زیادہ توانائی ہوتی ہے۔

جب یہ گرم ہوا سرد ہوا سے ٹکراتی ہے تو حرارت کم ہو جاتی ہے اور بخارات کے مالیکیولز ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں۔ اس عمل کو ‘کنڈنسیشن’ کہا جاتا ہے۔
انوائرمینٹل سائنس کے پروفیسر عبداللہ مہربان نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کلاڈ برسٹ یعنی بادل کے پھٹنے کے واقعات پہاڑی علاقوں میں خاص طور پر شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ اچانک اور شدید بارش کے باعث لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب اور جانی و مالی نقصانات کا سبب بنتے ہیں۔
سب سے پہلے محکمہ موسمیات نے جدید ریڈار سسٹم اور سیٹلائٹ ڈیٹا کا استعمال شروع کیا ہے تاکہ بارشوں کی شدت اور پیٹرن کا تجزیہ کیا جا سکے۔ مگر ابھی تک کلاؤڈ برسٹ کا اندازہ لگانے کے لیے ابھی تک کسی کے پاس بھی کوئی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔
اس کے علاوہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور صوبائی ادا رے مقامی کمیونٹیز کو آگاہی مہمات کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بارشوں کے موسم میں خطرناک علاقوں سے دور رہیں۔
پروفیسر عبداللہ مہربان نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی حد تک ابھی دنیا میں بھی ایسا کوئی نظام نہیں جو سو فیصد درستگی کے ساتھ بادل کے پھٹنے کی پیش گوئی کر سکے۔ البتہ ہائی ریزولیوشن موسمیاتی ماڈلز، ڈوپلر ریڈار اور سیٹلائٹ امیجری کے ذریعے کسی علاقے میں کلاڈ برسٹ کے امکانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حکومتی سطح پر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ریسکیو ٹیموں اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ متاثرہ علاقوں تک فوری مدد پہنچ سکے۔

یعنی فی الحال کلاڈ برسٹ کے عمل کو مکمل طور پر پہلے سے روکنا ممکن نہیں، لیکن پیشگی وارننگ سسٹم اور عوامی آگاہی کے ذریعے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔
خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں کلاؤڈ برسٹ کے واقعات نے درجنوں خاندانوں کو متاثر کیا ہے اور صورتحال نے حکومت کی تیاری اور حکمت عملی پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ایسے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ انتظامیہ اس قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے اور اب تک کی کوششیں کس حد تک مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سیلاب سے متاثرہ پاکستان یا انڈیا نے مدد کی درخواست کی تو اقوام متحدہ تیار ہے، سیکرٹری جنرل
اردو نیوز سے وابستہ صحافی ادیب یوسفزئی نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ کلاؤڈ برسٹ کے سب سے زیادہ واقعات بونیر، شانگلہ، سوات اور حالیہ دنوں میں صوابی میں پیش آئے ہیں، جہاں درجنوں جانیں ضائع ہوئیں۔ اب تک خیبرپختونخوا حکومت کے پاس اس آفت سے نمٹنے کی کوئی جامع حکمت عملی نہیں ہے۔
’ضلعی انتظامیہ امدادی ٹیموں کو بھی تاخیر کا شکار کر رہی ہے، اگر کوئی امدادی ٹیم کیمپ لگانا چاہے بھی تو انتظامیہ کی طرف سے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اس کے لیے پہلے انتظامیہ سے اجازت لی جائے، جبکہ کئی متاثرہ علاقے سرکاری ریکارڈ میں ‘شامل ہی نہیں ہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود کلاؤڈ برسٹ ایک ایسا مظہر ہے جو ماہرین کے لیے بھی چیلنج بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرہ علاقوں میں زیادہ تر لوگ مقامی اندازوں پر انحصار کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں:پاکستان میں مون سون سے سیلابی صورتحال: ’اب تک 670 افراد جاں بحق، 1000 سے زائد زخمی ہوچکے
ادیب یوسفزئی نےپاکستان میں ٹیکنالوجی پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ جہاں تک ٹیکنالوجی کا تعلق ہے، پاکستان سمیت دنیا میں کہیں بھی ایسی سہولت موجود نہیں جو کلاؤڈ برسٹ کی پیش گوئی کر سکے۔
یہ اچانک پیش آنے والا مظہر ہے، البتہ مقامی لوگ موسم کی شدت اور حبس سے اندازہ لگا لیتے ہیں۔ فی الحال امدادی سرگرمیاں صرف اندازوں اور دستیاب وسائل پر چل رہی ہیں۔
اگر پاکستان یا پاکستان جیسے کسی بھی ملک کو ایسی صورتحال سے بچانا ہے تو زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں، درخت ہی وہ ہتھیار ہیں جو موسمیاتی تبدیلی میں انسانی جانوں ، مال متاع کی حفاظت کے لیے مضبوط ڈھال بن جاتے ہیں۔