Follw Us on:

انڈیا اور امریکا میں تجارتی تناؤ، واشنگٹن نے نئی دہلی پر پچاس فیصد ٹیرف نافذ کر دیا

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Us teriff
یہ شرح امریکا کی جانب سے عائد کردہ سب سے زیادہ ڈیوٹیوں میں شمار ہوتی ہے، جو برازیل اور چین کے برابر ہے۔ (فوٹو: رائٹرز)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انڈیا سے درآمد کی جانے والی اشیا پر ڈیوٹیز کو دوگنا کر کے 50 فیصد تک بڑھانے کا فیصلہ بدھ کے روز نافذ ہو گیا جس سے دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوریتوں اور اسٹریٹجک شراکت داروں کے درمیان تناؤ مزید بڑھ گیا ہے۔

انڈیا کی روسی تیل کی خریداری کے باعث لگائی گئی 25 فیصد اضافی ڈیوٹی، ٹرمپ کی پہلے سے عائد کردہ 25 فیصد ڈیوٹی میں شامل ہو گئی جس کے بعد کپڑوں، زیورات، جوتوں، کھیلوں کے سامان، فرنیچر اور کیمیکلز جیسی اشیا پر کل ٹیکس 50 فیصد تک جا پہنچا ہے۔

یہ شرح امریکا کی جانب سے عائد کردہ سب سے زیادہ ڈیوٹیوں میں شمار ہوتی ہے، جو برازیل اور چین کے برابر ہے۔

ان نئی پابندیوں سے ہزاروں چھوٹے برآمد کنندگان اور روزگار متاثر ہونے کا خدشہ ہے، جن میں وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات بھی شامل ہے۔

انڈیا کی وزارتِ تجارت نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم ایک حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ متاثرہ برآمد کنندگان کو مالی مدد فراہم کی جائے گی اور انہیں چین، لاطینی امریکا اور مشرقِ وسطیٰ جیسے نئے بازاروں کی طرف متوجہ کیا جائے گا۔

Us teriff.
ان نئی پابندیوں سے ہزاروں چھوٹے برآمد کنندگان اور روزگار متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ (فوٹو: رائٹرز)

امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کے نوٹس کے مطابق انڈین مال بردار جہاز جو پابندی کے وقت سے پہلے روانہ ہو چکے ہیں، انہیں 17 ستمبر تک پرانی کم شرح پر امریکا میں داخلے کی اجازت ہوگی۔

اسٹیل، ایلومینیم، تانبہ، گاڑیاں اور دیگر اشیا جو پہلے ہی علیحدہ 50 فیصد تک کے محصولات کے دائرے میں آتی ہیں، اس نئے حکم سے مستثنیٰ رہیں گی۔

انڈیا کا کہنا ہے کہ امریکا سے درآمدات پر اس کی اوسط ڈیوٹی 7.5 فیصد ہے، لیکن امریکی تجارتی نمائندے کے مطابق انڈین شرح محصول زرعی اجناس پر اوسطاً 39 فیصد اور گاڑیوں پر 100 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔

امریکی عہدیدار پیٹر نیوارو نے واضح کیا کہ یہ اضافی محصولات حسبِ اعلان بدھ کو نافذ ہوں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان پانچ دور کی ناکام تجارتی بات چیت کے بعد یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔

انڈین حکام کو امید تھی کہ امریکا شرح 15 فیصد پر روک دے گا، جیسا کہ جاپان، جنوبی کوریا اور یورپی یونین کے ساتھ کیا گیا ہے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔

Us teriff1
معاشی ماہر راجیشوری سینگپتا کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی برآمد کنندگان کی مسابقت بحال کرنے کا ایک بالواسطہ طریقہ ہو سکتا ہے۔ (فوٹو: رائٹرز)

2024 میں دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارتی حجم 129 ارب ڈالر رہا، جس میں امریکا کا تجارتی خسارہ 45.8 ارب ڈالر تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان محصولات سے انڈیا کی امریکا کو 87 ارب ڈالر کی برآمدات میں سے 55 فیصد متاثر ہو سکتی ہیں، جس سے ویتنام، بنگلہ دیش اور چین جیسے حریفوں کو فائدہ ملے گا۔

انڈین برآمد کنندگان کی فیڈریشن کے صدر ایس سی را لہان نے کہا کہ یہ اقدام انڈیا کی سب سے بڑی برآمدی منڈی میں شدید خلل ڈالے گا اور اشیا 30 سے 35 فیصد تک مہنگی ہو جائیں گی۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ متاثرہ برآمد کنندگان کو ایک سال کے لیے قرضوں کی ادائیگی سے استثنیٰ دیا جائے اور آسان شرائط پر کم لاگت کے قرض فراہم کیے جائیں۔

Terrif
منگل کو دونوں ملکوں کی وزارتِ خارجہ نے مشترکہ بیان میں کہا کہ اعلیٰ سطحی حکام نے ورچوئل ملاقات میں تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ (تصویر: اے بی سی)

معاشی ماہر راجیشوری سینگپتا کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی برآمد کنندگان کی مسابقت بحال کرنے کا ایک بالواسطہ طریقہ ہو سکتا ہے۔

یہ صورتحال انڈیا کی اس بڑھتی ہوئی اہمیت کو بھی متاثر کر سکتی ہے جس کے تحت اسے چین کے متبادل مینوفیکچرنگ مرکز کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔

اس تجارتی تنازع نے امریکا اور انڈیا کے وسیع تعلقات پر سوال اٹھا دیے ہیں، حالانکہ دونوں ممالک اہم سکیورٹی شراکت دار ہیں اور چین کے حوالے سے یکساں خدشات رکھتے ہیں۔

تاہم منگل کو دونوں ملکوں کی وزارتِ خارجہ نے مشترکہ بیان میں کہا کہ اعلیٰ سطحی حکام نے ورچوئل ملاقات میں تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی خواہش ظاہر کی اور کواڈ شراکت داری (امریکا، انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا) کے عزم کا اعادہ کیا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس