2023کے دوران قرآن کی بے حرمتی کے کئی واقعات میں ملوث ہونے والے عراقی شہری ‘سالوان مومیکا’ کو قتل کر دیا گیا۔ مومیکا کی موت بدھ کی رات ناروے میں ایک اپارٹمنٹ میں گولی مار کر کی گئی۔
اس واقعے کے بعد پولیس نے پانچ افراد کو قتل کے شبے میں گرفتار کیا ہے اور یہ معاملہ عالمی سطح پر مختلف ردعمل کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف سویڈن اور ناروے بلکہ دنیا بھر میں بحث کا باعث بن چکا ہے جہاں مومیکا کی متنازعہ شخصیت اور اس کے اعمال پر مختلف اقسام کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
سالوان مومیکا 2023 میں دنیا بھر میں اس وقت معروف ہوا جب اس نے سویڈن میں قرآن پاک کو جلایا اور اس کی بے حرمتی کی۔ مومیکا کا کہنا تھا کہ اس کے یہ اقدامات آزادیِ اظہار رائے کے تحت ہیں اور اس کا مقصد اسلام کے پیغام کو دنیا بھر میں اجاگر کرنا تھا۔ ان واقعات نے خاص طور پر مسلم دنیا میں شدید غصے اور نفرت کو جنم دیا تھا جس کے نتیجے میں کئی ممالک میں مظاہرے اور فسادات ہوئے۔
مومیکا کا تعلق عراق کے صوبے موصل کے ضلع الحمدانیہ سے تھا۔ اس نے سویڈن میں پناہ حاصل کرنے سے قبل عراق میں ملیشیا کی سربراہی کی تھی اور وہاں دھوکہ دہی کے متعدد کیسز میں بھی ملوث تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق عراق کو اس کی حوالگی کے لیے سویڈن نے درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔ مومیکا نے سویڈن میں پناہ حاصل کی تھی اور اس کے خلاف متعدد الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں اقلیتی فرقوں کے خلاف نفرت انگیزی شامل تھی۔
اس کی موت کے بعد پولیس نے پانچ افراد کو گرفتار کیا جنہوں نے ابتدائی طور پر قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ تاہم، ابھی تک اس قتل کے اصل محرکات کے بارے میں کوئی واضح تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔

(گوگل)
سویڈن کے وزیرِاعظم اولف کرسٹرسن نے اس واقعے کو حساس نوعیت کا قرار دیا اور کہا کہ سویڈن کی سیکیورٹی سروس بھی اس تحقیقات میں شامل ہو چکی ہے کیونکہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس قتل کے پیچھے کسی غیر ملکی طاقت کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ مومیکا نے اپنی آخری سوشل میڈیا پوسٹ میں اعلان کیا تھا کہ وہ سویڈن چھوڑ کر ناروے جا چکا ہے اور اس نے وہاں پناہ اور بین الاقوامی تحفظ کے لیے درخواست دی ہے۔
اس نے سویڈن کی حکومت پر الزام لگایا تھا کہ وہ مفکرین کے بجائے صرف دہشت گردوں کے لیے پناہ فراہم کرتی ہے۔
مومیکا کا کہنا تھا کہ اس نے سویڈن میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے باوجود وہاں کے عوام سے محبت اور احترام کو برقرار رکھا ہے مگر حکام کے ساتھ اس کا تعلق کشیدہ رہا۔
اس کے بعد مومیکا نے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلام کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے گا اور اس کے لیے جو قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی وہ ادا کرے گا۔
یہ پیغام اس کے متنازعہ نظریات اور بیانات کو مزید اجاگر کرتا ہے اور اس کی شخصیت کو مزید واضع کر دیتا ہے۔

(گوگل)
دوسری جانب مومیکا کا سویڈن میں رہائشی اجازت نامہ 2023 کے آخر میں منسوخ کر دیا گیا تھا اور اس کی درخواستوں میں غلط بیانی کرنے کے باعث اسے اپریل 2024 تک ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
سویڈش حکام نے یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا کہ مومیکا نے اپنے رہائشی اجازت نامے کے لیے غلط معلومات فراہم کیں۔ تاہم، سویڈن نے مومیکا کو عراق کے حوالے کرنے سے انکار کیا تھا کیونکہ اس بات کا خدشہ تھا کہ وہاں اسے تشدد یا غیر انسانی سلوک کا سامنا ہو سکتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مومیکا نے سویڈن کے اس فیصلے کے خلاف مائیگریشن کورٹ میں اپیل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا مگر اس سے پہلے ہی وہ ناروے پہنچ چکا تھا جہاں وہ مردہ پایا گیا۔
مومیکا کی موت پر دنیا بھر سے مختلف ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسے اس کی متنازعہ حرکتوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے اس کی موت کو ایک سنگین واقعہ قرار دیتے ہیں جس سے عالمی سیاست اور مذہبی حساسیت کے تعلقات پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
سویڈن اور ناروے کی حکومتیں اس معاملے کی تحقیقات میں شدت سے مصروف ہیں جبکہ اس قتل کے پس منظر میں موجود محرکات کو جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔