Follw Us on:

لندن میں ٹومی رابنسن کی متنازعہ ریلی، نسل پرست مخالف مظاہرین کا بھر پور جواب

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Featured image (53)
متنازع ریلی کے قریب ہی مارچ اگینسٹ فاشزم کے عنوان سے ایک بڑی جوابی ریلی نکالی گئی.(فوٹو گوگل)

برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں آج ایک بڑی اور متنازعہ ریلی دیکھی گی، جس میں انتہائی دائیں بازو کے سرگرم کارکن ٹومی رابنسن کی قیادت میں یونائیٹ دی کنگڈم کے عنوان سے منعقدہ ریلی میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد افراد شریک ہوئے۔

عالمی خبررساں ادارے بی بی سی کے مطابق وائٹ ہال میں جمع ہونے والے مظاہرین نے یونین جیک اور سینٹ جارج کے جھنڈے لہرا کر برطانوی شناخت کی بات کی۔اس اجتماع میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق اسٹریٹجسٹ اسٹیو بینن سمیت متعدد عالمی اور مقامی شخصیات نے خطاب کیا۔

اس متنازع ریلی سے خطاب کرتے ہوئے قدامت پسند رابنسن، جن کا اصل نام اسٹیفن یاکسلے-لینن ہے نے تارکین وطن پر الزام لگایا کہ انہوں نے مقامی آبادی کا حق مارا ہوا ہے۔

پناہ گزینوں کی رہائش سے متعلق عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے رابنسن کا کہنا تھا کہ یہ برطانوی عوام کے ساتھ ناانصافی ہے اور حکومت کو فوری طور پر اپنی امیگریشن پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

Featured image (54)
مظاہرین نے گھیرے کو توڑنے اور مخالف گروپ تک پہنچنے کی کوشش کی جس پر افسران کو مداخلت کرنا پڑی۔ (فوٹو بی بی سی)

دوسری جانب اس متنازع ریلی کے قریب ہی مارچ اگینسٹ فاشزم کے عنوان سے ایک بڑی جوابی ریلی نکالی گئی، جس کا اہتمام اسٹینڈ اپ ٹو ریسزم  نے کیا تھا۔جس میں تقریباً پانچ افراد سے زائد افراد نے شرکت کی، جس میں شرکا نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا، ہم مہاجرین کا خیر مقدم کرتے ہیں اور دائیں بازو کو روکو۔

اس جوابی مظاہرے میں رکن پارلیمان ڈایان ایبٹ اور زارا سلطانہ سمیت کئی سیاسی و سماجی شخصیات نے خطاب کیا اور کہا کہ برطانیہ کو تقسیم کرنے کے بجائے تمام کمیونٹیز کو جوڑنے کی ضرورت ہے۔

برطانیہ کے رکن پارلیمنٹ زارا سلطانہ نے خطاب کرتے ہوئے کہ یہ وقت نفرت پھیلانے کا نہیں بلکہ متحد ہونے کا ہے۔ تارکین وطن اور مہاجرین کو نشانہ بنانا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اسے مزید بگاڑتا ہے۔

بی بی سی کے مطابق میٹروپولیٹن پولیس نے مظاہرے کو پرامن رکھنے کے لیے تقریباً 15 سو پولیس افسران کو تعینات کیا، جن میں پانچ سو افسران دیگر شہروں سے منگوائے گئے تھے۔ دونوں گروپوں کو الگ رکھنے کے لیے وائٹ ہال اور قریبی علاقوں میں بیریئرز لگائے گئے تاکہ تصادم روکا جا سکے۔

Featured image (52)
یہ وقت نفرت پھیلانے کا نہیں بلکہ متحد ہونے کا ہے، زارا سلطانہ (فوٹو گوگل)

پولیس کے مطابق بعض مظاہرین نے گھیرے کو توڑنے اور مخالف گروپ تک پہنچنے کی کوشش کی جس پر افسران کو مداخلت کرنا پڑی۔ میٹ پولیس نے تصدیق کی کہ کچھ افسران پر حملہ ہوا لیکن مجموعی طور پر صورتِ حال کو قابو میں رکھا گیا

یہ بھی پڑھیں : نیوزی لینڈ: فلسطینیوں کے حق میں تاریخی مارچ، 50 ہزار افراد کی شرکت

پولیس نے یہ بھی واضح کیا کہ ریلی کے دوران لائیو فیشل ریکگنیشن ٹیکنالوجی استعمال نہیں کی گئی۔ میٹ نے لندن کی مسلم کمیونٹی کو یقین دہانی کرائی کہ وہ نفرت انگیز جرائم پر زیرو ٹالرنس اپنائے گی اور کسی کو اپنے معمولات تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

واضح رہے کہ برطانیہ کے دائیں بازو کے گروہ اس ریلی کو امیگریشن قوانین کو مزید بہتر بنانے سے جوڑ رہے ہیں، جب کہ سماجی تنظیمیں اس موقف کو مہاجرین مخالف پروپیگنڈا قرار دے رہی ہیں، جس سے معاشرے میں نفرت کو بڑھاوا دینا ہے۔

Author

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس