Follw Us on:

پاکستان کا ‘دبئی اور سنگا پور‘ گوادر: سڑکوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

افضل بلال
افضل بلال

چین کے اشتراک سے پاکستان کی ترقی کے لیے سی پیک (چین۔پاکستان اکنامک کوریڈور) تب شروع کیا گیا جب محمد نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ اس منصوبے کو’ گیم چینجر‘ قرار دیا گیا، سی پیک کا دل ’گوادر سی پورٹ‘ ہے ۔

عالمی سطح پرگوادر منصوبے کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایران اور باقی عرب ممالک سے نزدیکی کی وجہ سے تجارتی عمل آسان ہوجائے گا۔ 2015 میں شروع ہونے والے منصوبے کو آج اہم ترین معاشی اور اقتصادی حب سمجھا جارہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ترقیاتی کام تاحال جاری ہیں۔

‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے معاشی محقق پروفیسر ڈاکٹر فہد رضوان نے کہا کہ “گوادر کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ منصوبوں پر عمل درآمد میں تاخیر اور انتظامی مسائل ہیں۔ حکومت چینی کمپنیوں اور مقامی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ان چیلنجز کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن بیوروکریٹک رکاوٹیں اور سیاسی عدم استحکام تاحال ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔”

دوہزار پندرہ میں سی پیک کے تحت  شروع کیے گئے ’گوادر پراجیکٹ’ کو نہ صرف ایک بہترین تجارتی بندرگاہ کے طور پر ترقی دی جائے گی بلکہ اس منصوبےسے پاکستان میں توانائی، مواصلات اور صنعتی شعبوں میں بھی بڑی سرمایہ کاری کے دروازے کھلیں گے۔

بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر مولانا ہدایت الرحمٰن نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ “میں خود گوادر کا نمائندہ ہوں وہاں بھی ڈالر مافیا کا مسئلہ تاحال ہے، بارڈر کی بندش نوکریوں اور کاروبار کے بھی مسائل ہیں۔ وہاں چیک پوسٹوں کے بھی مسائل ہیں اور عزت نفس کا سنگین مسئلہ ہے۔ سی پیک جسے ماتھے کا جھومر کہتے ہیں بلوچستان اسی سی پیک کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس منصوبے سے نا بلوچستان کو کچھ ملا اور نہ ہی گوادر کے عوام کو‘۔”

دوہزار پندرہ میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اس منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ (فوٹو: دی ٹریبیون)

تین اطراف سے سمندر میں گھرے اور پہاڑوں کی موجودگی کی وجہ سے گوادر اس منصوبے کے تحت سیاحتی لحاظ سے بھی بے شمار فوائد کا حامل ہوگا۔ اس حوالے سے مولانا ہدایت الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ” اس میں ترقی کے نام پر صرف دھوکہ ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ سبز باغ دکھا کر، مستقبل کا دبئی اور سنگاپور کہہ کر بلوچستان اور گوادر کے عوام کو لوٹ لیا گیا ہے۔” انہوں نے اراکین حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “سی پیک کے نام پر کمیشن کھا کر خود ارب پتی بن گئے ہیں لیکن بلوچستان اور گوادر کی حالت تبدیل نہیں ہوئی۔”

جغرافیائی لحاظ سے گوادر صفِ اول کی بندرگاہوں میں شمار ہوتا ہے۔ 1954 میں ہونے والے ایک امریکی جیالوجیکل سروے میں گوادر کو گہری بندرگاہ کے لیے موزوں مقام قرار دیا گیا۔ گوادر کا ساحل گہرا ہے جس کے باعث بڑے بڑے جہاز باآسانی لنگرانداز ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر فہد رضوان کے ماننا ہے کہ “گوادر بندرگاہ کے مکمل طور پر فعال ہونے سے پاکستان کی معیشت کو زبردست فروغ ملے گا۔ بین الاقوامی تجارت میں اضافہ ہوگا، برآمدات کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، اور ٹرانزٹ ٹریڈ سے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوں گے۔ اس کے علاوہ مقامی صنعتوں کو فروغ ملے گا اور روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔”

پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع گوادر پاکستان کو اہم ترین سمندری راستوں سے جوڑتا ہے۔ ایرانی گلف کے دہانے پہ ہونے کی وجہ سے گوادر کو تجارتی راستے کی آمدورفت تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ گوادر کا آبنائے ہرمز تک فاصلہ صرف 400 کلومیٹر ہے جس سے اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ لیکن سیاسی اور سیکیورٹی کے مسائل اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوت ثابت ہو رہے ہیں۔

ایک طرف جدید گوادر تو دوسری طرف غریب مچھیرے رہتے ہیں (فائل فوٹو)

ڈاکٹر فہد رضوان کا کہنا ہے کہ “بلوچستان میں سیکیورٹی چیلنجز گوادر منصوبے کی رفتار کو کافی حد تک متاثر کر رہے ہیں۔ تخریب کاری کے واقعات اور غیر ملکی مداخلت ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ تاہم حکومت اور سیکیورٹی ادارے خصوصی فورسز، جدید نگرانی کے نظام اور کمیونٹی انگیجمنٹ کے ذریعے سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کر رہے ہیں۔”

دوسری جانب اس حوالے سے مولانا ہدایت الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ” پورے سی پیک میں بلوچستان کے عوام کے ساتھ جو بدترین زیادتی اسلام آباد کے حکمرانوں نے کی ہے اس نے نفرت اور تعصب کی حد کر دی ہے۔”

انہوں نے وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ “اسلام آباد کے حکمرانوں کا بلوچستان کے عوام کے لیے صرف ظلم، بدنیتی اور تعصب ہے۔ یہ بلوچستان کے عوام کو کمتر اور کیڑا مکوڑا سمجھتے ہیں۔ ان حکمرانوں کے رویوں کی وجہ سے سی پیک بلوچستان میں وجود ہی نہیں رکھتا۔”

گوادر منصوبہ پاکستان کی معیشت میں نمایاں تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ اس منصوبے سے لاکھوں لوگوں کو روزگار کے مواقعے میسر آئیں گے۔ اس کے علاوہ عالمی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس منصوبے میں گوادر بندرگاہ کے علاوہ پورے ملک میں سڑکیں، ائیرپورٹ، پیٹرول پمپ، کھیل کے میدان، تعلیمی ادارے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے ادارے شامل ہیں۔

اس حوالے سے مولانا ہدایت الرحمٰن کا کہنا ہے کہ “ٹورسٹ ٹرین، موٹروے اور بہت بڑے بڑے پروجکٹ پورے ملک میں سی پیک کے نام سے بنے لیکن بلوچستان کو صرف چیک پوسٹیں ہی ملیں اور کچھ نہیں ملا، اس لیے بلوچستان میں سی پیک کا کوئی وجود نہیں ہے۔”

گوادر میں 2020 تک بنیادی انفراسٹرکچر کے منصوبوں نے مکمل ہونا تھا اور اس کے بعد فیز ٹو میں اقتصادیاتی منصوبوں پہ کام شروع ہوا تھا اور عالمی سرمایہ کاروں کی جانب سے سرمایہ کاری ہونی تھی۔ فیز ون مکمل ہونے کے بعد محتلف وجوہات کی بنا پر تا حال فیز ٹو مکمل نہیں ہو سکا۔

چینی باشندوں کو خصوصی طور پر سیکیورٹی فراہم کی جارہی ہے (فوٹو: دریوز)

ڈاکٹر فہد رضوان کے نزدیک “گوادر منصوبے کی تکمیل میں تاخیر عالمی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متزلزل کر سکتی ہے۔ سرمایہ کار ہمیشہ ایسے منصوبوں میں دلچسپی لیتے ہیں جہاں استحکام اور بروقت تکمیل کی ضمانت ہو۔ اگر یہ تاخیر برقرار رہی، تو بیرونی سرمایہ کاری کم ہو سکتی ہے، جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔”

گوادر منصوبے کی تکمیل میں بہت سی مشکلات بھی سامنے آئی ہیں جن میں سب سے پہلے سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ بلوچستان کے دور دراز علاقے میں ہونے کے سبب یہ علاقہ دہشت گردی جیسے مسائل کا شکار رہا ہے جس کے باعث منصوبے کی رفتار سست ہوئی ہے۔ مقامی افراد نے بھی منصوبے کے بارے میں اپنے مسائل کا اظہار کر رہے ہیں جس میں غیر قانونی ماہی گیری، بجلی کی قلت اور پانی کی عدم دستیابی شامل ہے۔ مقامی افراد اس بارے میں دھرنے دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر فہد رضوان کے مطابق “کسی بھی بڑے ترقیاتی منصوبے کی کامیابی کے لیے مقامی کمیونٹی کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہوتا ہے۔ گوادر میں پانی اور بجلی کی قلت، صحت و تعلیم کی سہولیات کا فقدان اور بے روزگاری جیسے مسائل حل کیے بغیر اس منصوبے کے طویل مدتی فوائد حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ حکومت کو عوامی شمولیت اور بنیادی ضروریات پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔”

بلوچستان کے عوام کے دھرنوں اور عوامی مشکلات کے حل کے لیے حکومت نے مذاکراتی عمل تیز کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی مسائل کے حل کے لیے کمیٹیاں بھی تشکیل دے دی ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے اور روزکار کے مواقع بڑھانے کے لیے اسکیمیں بھی متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ بہتر سیکیورٹی سہولیات کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن عوام تاحال عملی پیش رفت کے منتظر ہیں۔

اس حوالے سے مولانا ہدایت الرحمٰن کا کہنا ہے کہ “چینیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں تو ان کو بھی حکومت پاکستان سے بات کرنی چاہیے کہ بلوچستان کیوں بدستور نظر انداز ہے؟ کیوں بلوچستان میں کام نہیں کیا جاتا؟ کیوں بلوچستان کے عوام کو خوش نہیں کیا جاتا؟ کیوں بلوچستان کے عوام پریشان ہیں اور تشویش کا شکار ہیں؟ یہ چینی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اگر پاکستانی حکومت کو بلوچستان کے عوام کی فکر نہیں ہے تو ان کو تو کرنی چاہے۔ جس علاقے میں چینی کام کرنا چاہتے ہیں اس علاقے کے عوام کو بھی خوش رکھا جائے۔”

بلاشبہ سی پیک پاکستان کے لیے ایک تاریخی اور اہم منصوبہ ہے۔ مکمل شفافیت اور مؤثر حکمت عملی اس کے حقیقی فوائد حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ بنیادی سہولیات، صنعقی ترقی اور مقامی روزگار پر بھرپور توجہ دی جائے تو یہ ملکی معیشت کو نئی بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے۔ لیکن شفافیت، انتظامی بوجھ، بیرونی مداخلت اور قرضوں کے بوجھ جیسے مسائل اس منصوبے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے مؤثر اقدامات کرے تو یہ حقیقت میں پاکستان کے ماتھے کا جھومر ثابت ہو سکتا ہے۔

افضل بلال

افضل بلال

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس