غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے تحت تین اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جا رہا ہے اور خان یونس میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا ہے۔ خان یونس میں آئی سی آر سی کے حوالے کیے جانے والے قیدیوں میں الیگزینڈر ٹروفانوو، سگی ڈی کل-چین اور یائر ہورن شامل ہیں، جو اچھی جسمانی حالت میں نظر آئے۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ اگلے ہفتے اسرائیل کے ساتھ غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے غیر براہِ راست مذاکرات کی توقع رکھتے ہیں۔
یہ رہائی ایک بڑے معاہدے کا حصہ ہے جس کے تحت اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلہ کیا گیا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات اور معاہدے کی باتیں جاری ہیں، جنہیں دونوں طرف کی حکومتیں اپنے اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تاہم، اس معاہدے میں کئی رکاوٹیں آئی ہیں، جن میں سب سے بڑی رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی ہے۔
اسرائیل نے امدادی سامان کی فراہمی کے حوالے سے جو وعدے کیے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے اور غزہ کی حالت بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
اس کے باوجود بین الاقوامی کوششوں کی بدولت، جیسے کہ مصر اور قطر کے توسط سے امداد کی فراہمی میں تھوڑی بہت پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم، اسرائیل نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جب تک قیدیوں کا مکمل تبادلہ نہیں ہوتا وہ غزہ میں تعمیر نو کے سامان کی فراہمی نہیں کرے گا۔
غزہ میں ابھی تک تعمیراتی سامان جیسے کہ موبائل گھر اور بھاری مشینری، مصر کی سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں جس سے امدادی کاموں میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔
غزہ کے اندر صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔ جنگ کے نتیجے میں غزہ کی زمین ملبے میں بدل چکی ہے اور ہزاروں لوگ اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا مودی کو ایف 35، اربوں ڈالرز کا جنگی سازوسامان دینے کا اعلان
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں 48,239 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ 111,676 افراد زخمی ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں افراد ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور ان کی زندگی کا کوئی پتا نہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ گازہ کے علاقے میں بارودی سرنگوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے زیر انتظام مائن ایکشن سروس (UNMAS) نے خبردار کیا ہے کہ جنگی ساز و سامان کی ایک بڑی تعداد ناکام ہو کر گازہ کی زمین پر پڑی ہوئی ہے جس سے زندگی کو مزید خطرات لاحق ہیں۔
اس وقت غزہ میں بے شمار ایسے ہتھیار پڑے ہیں جن کی وجہ سے انسانی زندگیوں کے لیے شدید خطرات موجود ہیں۔
اس دوران اسرائیل نے ایک اور حملہ کیا جس میں 15 سالہ انیس صقر النبہین کی موت واقع ہوئی۔ یہ حملہ بُریج کیمپ پر کیا گیا تھا جو ایک اور یاد دہانی ہے کہ جنگی معاہدے کی خلاف ورزیاں اب بھی جاری ہیں۔
آج کی اس صورتحال میں جب ایک طرف قیدیوں کی رہائی کا عمل جاری ہے، دوسری طرف جنگ کی حقیقتیں سامنے آ رہی ہیں کہ غزہ کی آزادی اور امن کا راستہ کتنی مشکلات سے گزر رہا ہے۔
اس معاہدے کا دوسرے مرحلے کا آغاز اگلے ہفتے متوقع ہے جس میں اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
غزہ کے لیے یہ لمحہ بہت مشکل ہے اور عالمی برادری کی نگاہیں اب اس بات پر ہیں کہ آیا یہ معاہدہ امن کے راستے کو ہموار کرے گا یا پھر اس کے بعد کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔