امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے بارکھان واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں، بلوچستان میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات ہمارے دلوں کو دہلا رہے ہیں۔
ایسے واقعات ملک کی سلامتی پر بھی سنگین سوالات کھڑے کرتے ہیں، افسوسناک واقعے میں متاثرہ خاندانوں سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں، حکومت فوری اور ٹھوس اقدامات کے ذریعے بلوچستان میں امن و امان کی بحالی یقینی بنائے، پاکستان کے دشمنوں نے دہشت گردی کا وار کیا ہے۔
بارکھان سانحے میں قتل ہونے والے بدقسمت مسافروں کے نام سامنے آ گئے
بارکھان سانحے میں قتل ہونے والے بدقسمت مسافروں کے نام سامنے آ گئے۔ مسافروں کا تعلق پنجاب کے مختلف شہروں سے ہے۔
حکام کے مطابق یہ واقعہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب رارکان کے علاقے میں نیشنل ہائی وے پر پیش آیا جہاں کوئٹہ سےلاہور جانے والی مسافر بس کو نامعلوم افراد نے روکا اور ’سات مسافروں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔‘
مرنے والوں کی متعلق درج ذیل تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔
عاشق حسین ریٹائرڈ ولد غلام سرور
محمد عاشق ولد داؤد علی – شیخوپورہ
شوکت علی ولد سردار علی – فیصل آباد
عاصم علی ولد محمود علی – منڈی بہاؤالدین
محمد اجمل ولد اللہ وسایا – لودھراں
محمد اسحاق ولد محمد حیات – ملتان
ڈپٹی کمشنر بارکھان خورشید عالم نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’مسلح افراد نے رات کی تاریکی میں کوئٹہ سے پنجاب جانے والی مسافر بس کو قومی شاہراہ پر روک کر مسافروں کی شناخت کی، جہاں سات مسافروں کو بس سے اتار کر فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔‘
ڈی سی بارکھان نے بتایا کہ ’نامعلوم افراد نے لاہور جانے والے مسافروں کے شناختی کارڈز چیک کیے اور انہیں بس سے اتار کر قریبی پہاڑی پر لے جا کر فائرنگ کا نشانہ بنایا۔‘
اس واقعے کے بعد سکیورٹی حکام نے مختلف مقامات پر مسافر بسوں اور گاڑیوں کو روک دیا ہے جبکہ رکھنی ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
وزیر اعظم آفس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ’مجرمان کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔‘
شہباز شریف کے بقول: ’نہتے اور معصوم شہریوں کی جان و مال کو نقصان پہنچانے والوں کو بہت سخت قیمت ادا کرنی پڑے گی۔‘
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ حکومت اور سکیورٹی فورسز ملک سے ’دہشت گردی‘ کی مکمل روک تھام کے لیے سرگرم عمل ہیں۔