April 21, 2025 12:37 am

English / Urdu

Follw Us on:

جدید زراعت یا روایتی چیلنجز؟ گرین پاکستان پروگرام کی حقیقت کیا ہے؟

عاصم ارشاد
عاصم ارشاد
چولستان کے کنڈائی اور شاپو کے علاقوں میں 'گرین پاکستان پروگرام' کی افتتاحی تقریب منعقد کی گئی۔ (فوٹو: انڈیپینڈنٹ نیوز پاکستان)

پاکستان میں زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے ‘گرین پاکستان پروگرام’ کا آغاز کر دیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت کسانوں کو ایک چھت کے نیچے بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات، ڈرونز اور زرعی مشینری سمیت تمام زرعی سہولیات رعایتی قیمتوں پر فراہم کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ تاہم، اس منصوبے پر تنقیدی سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا واقعی اس کے ثمرات عام کسانوں تک پہنچ سکیں گے؟

چولستان کے کنڈائی اور شاپو کے علاقوں میں ‘گرین پاکستان پروگرام’ کی افتتاحی تقریب منعقد کی گئی، جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی رانا تنویر حسین اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

تقریب میں اعلان کیا گیا کہ ‘گرین ایگری مال اینڈ سروسز کمپنی’ کسانوں کو معیاری بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات رعایتی نرخوں پر فراہم کرے گی۔ جدید سمارٹ ایگری فارم کا قیام کیا جائے گا، جو پانچ ہزار ایکڑ پر مشتمل ہوگا۔

کسانوں کو ڈرونز سمیت جدید زرعی مشینری رعایتی کرائے پر دی جائے گی۔ زرعی تحقیق اور سہولت مرکز میں کسانوں کو تحقیق، مٹی کی جانچ اور جدید کاشت کاری کی تربیت دی جائے گی۔

‘پاکستان میٹرز’ نے عام کسانوں سے سوال کیا کہ کیا انھیں اس کے فوائد ملیں گے، جس پر کئی کسانوں نے اس پروگرام پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا، بہاولپور سے تعلق رکھنے والے محمد رفیع، جو 12 ایکڑ کے مالک ہیں نے بتایا کہ ہمیں ہمیشہ سبسڈی اور رعایتی قیمتوں کے وعدے دیے جاتے ہیں، لیکن حقیقت میں ہمیں وہی بیج اور کھاد مہنگے داموں خریدنے پڑتے ہیں۔

بلیک مارکیٹ کا مسئلہ پہلے ہی ہے اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ حکومت واقعی عام کسانوں تک سہولت پہنچاتی ہے یا نہیں۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ حکومت واقعی عام کسانوں تک سہولت پہنچاتی ہے یا نہیں۔ (فوٹو: دی ایکسپریس ٹریبیون)

‘پاکستان میٹرز’ کو بہاولنگر کے زمیندار عبدالستار، جو 20 ایکڑ پر کاشت کاری کرتے ہیں نے بتایا کہ ڈرون اور جدید زرعی مشینری کا تصور بہت اچھا ہے، لیکن زیادہ تر چھوٹے کسانوں کے پاس ان کا کرایہ دینے کی بھی استطاعت نہیں ہے۔

بہتر ہوتا اگر حکومت چھوٹے کسانوں کو براہ راست سبسڈی دیتی، بجائے اس کے کہ ایک کمپنی کے ذریعے ان پر مزید انحصار کروایا جائے۔

دوسری جانب چولستان میں زراعت کے فروغ کے لیے جدید آبپاشی کا نظام متعارف کروانے کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن زمینی حقائق اس سے مطابقت نہیں رکھتے۔ چولستان میں پہلے ہی پانی کی شدید قلت ہے اور زیادہ تر کسان بارانی کاشتکاری پر انحصار کرتے ہیں۔

‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے زرعی ماہر ڈاکٹر رفیق خالد کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ کاغذوں میں زبردست لگتا ہے، لیکن اگر آبپاشی کا جدید اور مستحکم نظام فراہم نہ کیا گیا، تو چولستان میں زراعت کو وسعت دینا مشکل ہوگا۔ موجودہ نہری نظام اور ٹیوب ویل انفراسٹرکچر کو بھی اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے، جو اس منصوبے کا حصہ نظر نہیں آ رہا۔

دوسری جانب زرعی تجزیہ کار سہیل احمد نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ کسانوں کو سبسڈی اور رعایتی قیمتوں پر زرعی سامان دینے کے وعدے کیے گئے ہیں، لیکن ان کی شفافیت اور عملدرآمد کے بارے میں کوئی واضح میکنزم نہیں بتایا گیا۔ اگر ماضی کی طرح اس بار بھی مڈل مین اور بیوروکریسی اس سبسڈی کو ہڑپ کر گئے، تو کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

بیوروکریسی اور کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں تاکہ سبسڈی کا صحیح فائدہ عام کسانوں تک پہنچے۔ (فوٹو: دی ایکسپریس پاکستان)

اس کے برعکس حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ‘گرین پاکستان پروگرام’ واقعی زراعت میں جدیدیت لانے کا ایک انقلابی منصوبہ ہے اور اس کے ثمرات جلد نظر آئیں گے۔ تاہم، اس کے مؤثر نفاذ کے لیے چند اصلاحات ضروری ہیں جیسا کہ چھوٹے کسانوں کے لیے براہ راست سبسڈی دی جائے، تاکہ وہ جدید مشینری اور زرعی سہولیات استعمال کر سکیں۔

تمام بیج، کھاد اور زرعی مصنوعات کی قیمتوں کی مانیٹرنگ کے لیے ایک شفاف اور آزاد مانیٹرنگ باڈی قائم کی جائے۔ پانی کی دستیابی اور جدید آبپاشی کے نظام کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے، ورنہ زراعت کی ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔ بیوروکریسی اور کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں تاکہ سبسڈی کا صحیح فائدہ عام کسانوں تک پہنچے۔

دیے گئے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ایک سوال ہر ذہن میں آتا ہے کہ ‘گرین پاکستان پروگرام واقعی  زراعت کا حقیقی انقلاب ہے یا پھر محض ایک نیا نعرہ ہے؟ گرین پاکستان پروگرام کاغذوں پر ایک انقلابی قدم ضرور ہے، لیکن اس کے کامیاب نفاذ کے لیے حکومتی عزم، شفافیت اور مؤثر پالیسیوں کی ضرورت ہوگی۔

چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کو اس کا اصل فائدہ پہنچانے کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ اگر حکومت واقعی زرعی ترقی کی خواہاں ہے، تو اسے ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا اور صرف اعلانات کی بجائے حقیقی اصلاحات پر کام کرنا ہوگا۔

 

عاصم ارشاد

عاصم ارشاد

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس