خواتین قیدیوں کی رہائی، کیا حماس اور اسرائیل میں نیا تنازعہ جنم لینے والا ہے؟

حماس نے یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کی اگلی تاریخ واضح کردی ہے۔ غزہ میں 15 ماہ سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے حماس ایک نازک جنگ بندی کی شرائط کے تحت اسرائیل کے ساتھ دوسرے تبادلہ میں چار خواتین یرغمالیوں کو رہا کرے گا۔ حماس کے عہدیدار طاہر النونو نے غیر ملکی نیوز چینل اے ایف پی کو بتایا کہ چار اسرائیلی یرغمالیوں کو ہفتے کے روز فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا۔ دوسری جانب نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشکل سے جیتنے والے جنگ بندی معاہدے کا سہرا اپنے سر پر باندھ لیا۔ ان کا کہنا ہےکہ انہیں کہ یہ معاہدہ برقرار رہے گا کیونکہ وہ تاریخی دوسری مدت کے لیے صدر بنے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جنگ بندی معاہدے کے بعد غزہ میں انسانی امداد کی اشد ضرورت شروع ہو گئی ہے، کیونکہ جنگ سے بے گھر ہونے والے فلسطینی تباہ شدہ علاقوں کی طرف واپس چلے گئے ہیں۔ دوسری طرف حماس قیدیوں کے میڈیا آفس کے سربراہ ناہید الفخوری نے کہا کہ یرغمالیوں کو اتوار کو رہا کیا جائے گا، جب کہ جنگ بندی معاہدے کے مطابق حماس کوسات دن بعد ہفتے کے روز چار اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنا ہے۔ غیر ملکی خبرارساں ادارے رائٹرز کو ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الفخوری کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ یرغمالیوں کی رہائی کی آخری تاریخ ہفتہ تھی۔واضح رہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پاگیا ہے۔ معاہدے کے مطابق حماس آنے والے ہفتوں میں 90 سے زائد یرغمالیوں کو رہا کرے گا، جس سے غزہ میں 15 ماہ سے جاری جنگ کا خاتمہ ممکن ہے۔ حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدے میں کہا گیا تھا کہ حماس رہائی پانے والے یرغمالیوں کے نام ان کی رہائی سے 24 گھنٹے قبل ظاہر کردے گا، لیکن حماس کی جانب سے ہفتہ کے روز رہا ہونے والی خواتین کے نام نہیں بتائےگئے۔ اس کے علاوہ 19 جنوری کو بھی رہا ہونے والی تینوں خواتین کے ناموں کو حماس 24 گھنٹے قبل ظاہر کرنے میں ناکام رہا، لیکن دوسری جانب حماس نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قیدی خواتین کو تحائف سے نوازا۔ یادرہے کہ رواں ماہ اسرائیل اور حماس نے تین مرحلوں میں جنگ بندی معاہدےپر اتفاق کیا ہے۔ یہ جنگ بندی اتوار کو حماس کی طرف سے تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے بعد عمل میں آئی، جس کے بدلے میں اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں اور زیر حراست افراد کو رہا کیا۔ خیال رہے کہ جنگ بندی معاہدے میں چھ ہفتے کے ابتدائی جنگ بندی کے مرحلے کا خاکہ پیش کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ سے اپنی فوج کا انخلا کرے گا اور فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جب کہ دوسری جانب حماس بدلے میں اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا۔ مزید یہ کہ پانچ اسرائیلی خواتین فوجی لیری الباگ، کرینہ ایریف، اگام برجر، ڈینیئل گلبوا اور ناما لیوی حماس کی قید میں ہیں۔ اسرائیل ہر ایک خاتون فوجی کے بدلے 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ مزید یہ کہ حماس اس ہفتہ کو چار یرغمالیوں کو رہا کرنے کے بعد اگلے چار ہفتوں کے دوران ہر ہفتے تین یرغمالیوں کو رہا کرےگا۔ معاہدے کے دوسرے مرحلے میں حماس باقی ان تمام قیدیوں کو رہا کرے گا، جن کی عمریں 50 سال سے کم ہیں، جب کہ تیسرے مرحلے میں تمام یرغمالیوں کی لاشیں واپس کی جائیں گی۔
’آئی پی ایل کی اجازت،پی ایس ایل کیوں نہیں‘انگلش کرکٹرکا اپنے بورڈ کے دوہرے معیار پرسوال؟

انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے بلےباز جیمز ونس نے انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ (ای سی بی) کی حالیہ نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ (این او سی) پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ای سی بی کی پالیسی میں واضح طور پر دوہرےمعیار کی جھلک نظر آتی ہے، جس میں کھلاڑیوں کو آئی پی ایل کھیلنے کی اجازت دی گئی ہے مگر پی ایس ایل کی نہیں۔ انگلش بلےبازنے کہا کہ آئی پی ایل کے کھلاڑیوں کو کاؤنٹی چیمپئن شپ سے متصادم ہونے کے باوجود شرکت کی اجازت دی جاتی ہے، اس کے برعکس پی ایس ایل میں شرکت پر ان کھلاڑیوں کو پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ واضح رہے کہ نومبر 2024 میں انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کی جانب سے انگلش کھلاڑیوں کے لیے نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ پالیسی متعارف کرائی گئی۔ اس پالیسی کے تحت کھلاڑیوں کو انگلش ڈومیسٹک سیزن سے متصادم غیر ملکی لیگز بشمول پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی ہے، لیکن دوسری جانب بھارت کی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) اس پالیسی سے استثنیٰ ہے۔ آئی پی ایل میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو این او سی فوری طور پر دے دیا جاتا ہے۔ جیمز ونس کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل ایک مختصر مقابلہ ہے لہٰذا اگر آپ اس میں کھیلنے جا رہے ہیں تو آپ کو آئی پی ایل کی نسبت کم ڈومیسٹک کرکٹ چھوڑنی پڑتی ہے، لیکن پی ایس ایل کی بجائے آئی پی ایل میں کھلاڑیوں کو این او سی دیا جاتا ہے۔ این او سی پالیسی کے حوالے سےانگلش کرکٹر کا کہنا تھا کہ یہ ایک واضح طورپردوہرا معیار ہے جسے ای سی بی کی آئی پی ایل کے ساتھ گہری تعلقات اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ساتھ متنازعہ تعلقات سے جوڑا جا سکتا ہے۔ان کے مطابق یہ فیصلہ ای سی بی، پی سی بی اور بی سی سی آئی کے درمیان کچھ تعلقات پر مبنی ہو سکتا ہے۔ اپنی کرکٹ کی ترجیحات پر بات کرتے ہوئے جیمز ونس کا کہنا تھا کہ کھلاڑی اب زیادہ تر فرنچائز کرکٹ کو ترجیح دے رہے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ فرنچائز کرکٹ میں ڈومیسٹک کرکٹ کی نشبت زیادہ مالی فوائد ہیں۔ ان کھلاڑیوں کےلیے فرنچائز کرکٹ کو ترجیح زیادہ دی جاتی ہے جن کی عمریں بڑھ رہی ہیں کیوں کہ اب وہ مزید ڈومیسٹک کرکٹ نہیں کھیل سکتے۔ یاد رہے کہ جیمز ونس کا پی ایس ایل سے تعلق 2015 سے ہے۔ حال ہی میں انھوں نے کراچی کنگز کے ساتھ 2025 کے پی ایس ایل سیزن کے لیے معاہدہ کیا ہے اور ای سی بی کی این او سی پالیسی پر سوال اٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کراچی کنگز، ملتان سلطانز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا بھی ماضی میں حصہ رہے ہیں۔ اب پی ایس ایل کے دسویں ایڈیشن میں وہ کراچی کنگز کی نمائندگی کریں گے۔ وہ 45 میچز میں 1166 رنز بنا چکے ہیں، جن میں 4 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ ان کا پی ایس ایل میں سب سے زیادہ اسکور 84 ہے۔
بھارتی کرکٹ بورڈ ایک بار پھر کھیل میں سیاست لے آیا

ایک تنازعہ ختم نہیں ہوتا تو بھارت دوسرا لے آتا ہے، حال ہی میں پاکستان آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے حوالے سے’ہائبرڈ ماڈل‘ پر مانا تو اب بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) نے اپنی ٹیم کی جرسیوں پرمیزبان ملک (پاکستان) کا نام شامل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ ٹورنامنٹ پاکستان اور دبئی میں ہائبرڈ ماڈل کے تحت کھیلا جائے گا۔ بھارت نے اس سے قبل پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں ہائبرڈ انتظامات کیے گئے، جہاں پاکستان سرکاری طور پر میزبان ہے جبکہ بھارت کے میچز دبئی منتقل کر دیے گئے ہیں۔ جرسی کے اس تنازع نے دونوں کرکٹ بورڈز کے درمیان جاری کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ پی سی بی کے عہدیدار وں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو سیاست کا شکار بنانے کی کوشش قرار دیا۔ انہوں نے کہا، “یہ صرف ایک جرسی کا معاملہ نہیں، بلکہ کھیل کی روح کا معاملہ ہے”۔ بی سی سی آئی کی رپورٹ کے مطابق کپتان روہت شرما کو پاکستان میں کپتانوں کی میٹنگ اورافتتاحی تقریب کے لیے بھیجنے سے بھی انکارکردیاگیاہے، جس سے کشیدگی مزید بڑھ گئی۔” انہوں نے مزید کہا، “ہمیں یقین ہے کہ عالمی گورننگ باڈی (آئی سی سی) ایسا نہیں ہونے دے گی اورپاکستان کی حمایت کرے گی”۔ آئی سی سی ایونٹس میں شرکت کرنے والی ٹیموں کے لیے یہ ایک روایت ہے کہ وہ اپنی جرسیوں پر ٹورنامنٹ کے لوگو کے حصے کے طور پر میزبان ملک کا نام شامل کرتی ہیں چاہے ایونٹ کہیں بھی منعقد ہو۔ یاد رہے جب پاکستان نے 2016 اور 2023 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ مقابلوں میں شرکت کی تو پاکستانی ٹیم کی جرسیوں پرانڈیا پرنٹ تھا۔ انڈین ٹیم نے پاکستان میں ہونے والے ٹورنامنٹ کے لیے پاکستان کا سفر کرنے سے انکار کیا ہے اورحالیہ رپورٹس میں یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ انڈیا کےکپتان روہت شرما بھی ایونٹ سے قبل کپتانوں کی میٹنگ میں شرکت نہیں کریں گے۔ شائقین اور کرکٹ تجزیہ کاروں نے اس مسئلے پر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے کھیل کے اصل مقصد سے توجہ ہٹانے والا قرار دیا ہے۔ پی سی بی نے آئی سی سی سے مداخلت کی اپیل کی ہے اور ٹورنامنٹ کے پروٹوکولز کی پابندی کو یقینی بنانے کی درخواست کی ہے۔ فروری 2025 میں شروع ہونے والی چیمپئنز ٹرافی پہلے ہی انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیاسی اور کرکٹ کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کر چکی ہے۔ایونٹ کے آغاز میں چند ہفتے ہی باقی ہیں، اور یہ تازہ تنازع کھیل پر چھائی ہوئی وسیع تر سفارتی مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آٹھ ٹیموں پر مشتمل ٹورنامنٹ، جو 15 میچز پر مشتمل ہوگا، 19 فروری سے 9 مارچ تک پاکستان کے تین مختلف مقامات کراچی، لاہوراورراولپنڈی میں اور دبئی میں کھیلا جائے گا۔میزبان پاکستان 19 فروری کو کراچی میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹورنامنٹ کا آغاز کرے گا، جبکہ شائقین کے دلوں میں ہلچل مچانے والا میچ پاکستان بمقابلہ انڈیا 23فروری کو دبئی میں کھیلا جائے گا۔
21 توپوں کی سلامی کا راز! علامتِ امن یا رعب کا اظہار

ملک خداد پاکستان میں یوم آزادی اور دیگر اہم ریاستی و حکومتی سرکاری دنوں کے موقع پر 21 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز ہوتا ہے بلکہ امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، چین، بھارت اور کینیڈا سمیت دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں اہم ریاستی و حکومتی دنوں کے آغاز پر 21 توپوں کی سلامی ضرور دی جاتی ہے۔ لیکن آخر سلامی کے لیے 21 توپیں ہیں کیوں، یہ 20 یا 22 بھی ہوسکتی تھیں، یا ان کی تعداد ایک درجن تک بھی محدود ہوسکتی تھی؟ اُس وقت توپوں کو چلانے کا کام نہ صرف فوجیں کرتی تھیں، بلکہ عام اور بیوپاری افراد بھی توپیں چلایا کرتے تھے۔ توپوں کو چلانے کی تاریخ پہلے پہل قرون وسطیٰ کے زمانے میں اُس وقت ہوئی، جب دنیا میں جنگیں یا ایک دوسرے سے لڑنا معمول تھا۔ قریباً 14 ویں صدی میں پہلی بار توپوں کو چلانے کی روایت اُس وقت شروع ہوئی، جب کوئی فوج بحری راستے کے ذریعے دوسرے ملک جاتی تو ساحل پر پہنچتے ہی توپوں کے فائر کرکے یہ پیغام دیتی کہ ان کا مقصد لڑنا یا جنگ کرنا نہیں۔ افواج کی اس روایت کو دیکھتے ہوئے اُس وقت کے بیوپاری اور کاروباری افراد نے بھی ایک سے دوسرے ملک سفر کرنے کے دوران توپوں کو چلانے کا کام شروع کیا۔ روایات کے مطابق جب بھی کوئی بیوپاری کسی دوسرے ملک پہنچتا یا کوئی فوج کسی دوسرے ملک کے ساحل سمندر پہنچتی تو توپوں کے فائر کرکے یہ پیغام دیا جاتا کہ وہ لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور یہ فائر امن کا پیغام ہیں۔ چودہویں صدی تک فوج اور بیوپاریوں کی جانب سے 7 توپوں کے فائر کیے جاتے تھے اور اس کا بھی کوئی واضح سبب موجود نہیں کہ آخر 7 فائر ہی کیوں کیے جاتے تھے۔ غیر مستند تاریخ اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے جیسے دنیا میں ترقی ہوتی گئی اور بڑے بحری جہاز بنتے گئے، ویسے ہی توپوں کے فائر کرنے کی تعداد بھی بڑھتی گئی، جو 21 تک آ پہنچی۔ برطانوی فوج نے پہلی بار 1730 میں توپوں کو شاہی خاندان کے اعزاز کے لیے چلایا اور ممکنہ طور پر اسی واقعے کے بعد دنیا بھر میں سلامی اور سرکاری خوشی منانے کے لیے 21 توپوں کی سلامی کا رواج پڑا۔ جلد ہی 21 توپوں کی سلامی نے اہمیت اختیار کرلی اور برطانوی فوج نے 18 ویں صدی کے آغاز تک برطانوی شاہی خاندان کی عزت افزائی، فوج کے اعلیٰ سربراہان اور اہم سرکاری دنوں پر توپوں کی سلامی کو لازمی قرار دیا۔ اس وقت دنیا کے تقریباً تمام ممالک اپنے یوم آزادی، اہم ریاستی و حکومتی دنوں پر توپوں کے فائر کرتے ہیں، جب کہ تمام ممالک ریاست اور حکومت کے سربراہ کی شان سمیت دیگر ریاستوں اور ممالک کے مہمانوں کو عزت دینے کے طور پر بھی 21 توپوں کی سلامی دیتے ہیں۔ پاکستان بھی اپنے یوم آزادی کا آغاز 21 توپوں کی سلامی سے کرتا ہے، لیکن ملک میں اس دن کے علاوہ بھی توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔
غزہ کو جہنم بنانے والوں کا لاس اینجلس جل کر راکھ:قدرت کا انتقام یا محض حادثہ؟

امریکی ریاست کیلیفورنیا کےشہرلاس اینجلس میں 7 جنوری کو ایک خوفناک آتشزدگی نے پورے علاقے کوافسردہ کر دیا۔ تیز ہواؤں کے ساتھ پھیلنےوالی آگ نے ایک ہزار سے زائد گھروں اور کاروباری مراکز کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا ،ایک اندازے کے مطابق اس تباہی کا تخمینہ 50 ارب ڈالر سے بھی زیادہ بتایا جا رہا ہے۔ لاس اینجلس میں لگنے والی یہ آگ تیزی سے پھیلتے ہوئے 36 ہزار ایکڑ سے زائد علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پورے شہر میں ایمرجنسی نافذ ہے۔ اس شہر کے 30 ہزار افراد کو فوراً اپنے گھروں کو چھوڑنے کی ہدایات دی گئیں۔ یہ تباہی ایسی تھی کہ لاس اینجلس، جو ہالی ووڈ اور امیر ترین افراد کا گھر سمجھا جاتا ہےوہ شہر ایک طرح سے ’جہنم‘ بن گیا ہے۔ہزاروں لوگ اپنے قیمتی اثاثوں اور گھروں کو کھوچکے،ہر طرف خوف و ہراس کا عالم ہے۔ اس آفت میں کچھ ایسی کہانیاں بھی منظرعام پرآئیں جوانسانی جذبات اور قدرتی انتقام کی گواہ بن گئیں۔ ہالی ووڈ کے مشہور اداکار جان گڈمین اور بین ایفلک جیسے فلمی ستارے بھی اس آگ کی زد میں آ گئے اوران کے قیمتی گھرجل کر راکھ میں بدل گئے۔لیکن ایک ایسا واقعہ بھی سامنے آیا جس نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی۔وہ ہالی ووڈ کے معروف اداکارجیمزووڈز کا گھرتھا جو آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ یہ وہی جیمز ووڈز ہیں جو غزہ میں اسرائیل کی جنگ بندی کی مخالفت کرتے ہوئے عوامی سطح پر فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم پر خوش ہوتے تھے اور جب اس آگ کے بارے میں ان کی معلومات سامنے آئیں تو سوشل میڈیا پر ان کے گزشتہ بیانات پر سخت ردعمل بھی سامنے آیا۔ صارفین نے انہیں یاد دلایا کہ جب وہ مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم پر خوشی کا اظہار کرتے تھےاب خود ان کے گھر کی تباہی پر دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا “جب آپ غزہ میں قتل عام پر خوش ہوتے ہیں تو اب یہ آگ آپ کے لیے ایک انتباہ بن کر آئی ہے۔” دوسری جانب اس آگ نے نہ صرف لاس اینجلس بلکہ دنیا بھر میں ایک اہم سوال کو جنم دیا ہےکہ کیا یہ قدرت کا انتقام ہے؟ سوشل میڈیا پر اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے بعد یہ آگ کسی قدرتی بدلہ کے طور پر ظاہر ہو رہی ہے۔ کچھ صارفین نے کہا کہ “جو غزہ میں بے گناہوں کا خون بہاتے ہیں قدرت ان سے بدلہ ضرور لیتی ہے۔” اس آگ کے پیچھے کون سی وجہ ہے؟فائرحکام کا’امریکی میڈیا‘سے بات کرتے ہوئے کہنا ہے کہ تیز ہوا، خشک موسم اور پانی کی کمی نے اس آگ کو مزید بڑھا دیااور کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ آگ اسمارٹ ایلے کی تعمیر کے دوران لگی، جو انسانی غفلت کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ امریکا اوراسرائیل کے انتہاپسند رویے کے خلاف لوگ آواز اٹھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ “ہم آپ کی طرح انتہاپسند نہیں ہیں، ہم معصوم انسانوں، جانوروں اور درختوں کے لئے بارش کی دعا کرتے ہیں تاکہ یہ آگ جلنے سے رک جائے۔” سوشل میڈیا پرجاری بحث پر24 نیوز کے ڈائریکٹر نیوزمیاں محمدطاہرکا کہنا تھا کہ ’غزہ میں اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ بمباری اور قتلِ عام ہوا،اکثریت عورتوں اور معصوم بچوں کی ماری گئی یا اپاہج ہوگئی۔ ہسپتالوں کو سرِعام نشانہ بنایاگیا اورانسانی حقوق کے علمبرداراسرائیل کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ دنیا میں جارحیت کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی اور جو کچھ لاس اینجلس میں ہورہا ہے اس کو غزہ میں ہوئے مظالم کے مقابلے میں نہیں کہاجاسکتا‘۔ یہ سانحہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جب ظلم و جبر کی انتہا ہو جاتی ہے تو قدرت اپنے طور پر بدلہ لیتی ہے۔ ایک انتباہ، جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ آتشزدگی ایک حادثہ ہو سکتی ہے لیکن کیا یہ صرف ایک حادثہ تھا، یا پھر اس میں قدرت کا انتقام چھپاہوا تھا؟
پنجاب حکومت کی آسان کاروبار قرض سکیم: کیسے کام کرے گی؟

پنجاب حکومت نے 17 جنوری کو آسان کاروبار قرض سکیم کا آغاز کر دیا جس سے چھوٹے یا درمیانی سطح کے کاروباروں کو بلا سود 10 لاکھ سے 30ملین تک قرضہ دیا جائے گا۔ وزیرِ اعلی پنجاب مریم نواز شریف نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو کاروبار کے لیے زمین نہیں خرید سکتے انہیں زمین خریدنے میں بھی سبسڈی دی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ کو قرضہ لینے کے لیے کسی این او سی یا آرڈر کی ضرورت نہیں۔ آئیں آج قرضہ لیں اور کل اپناکاروبار شروع کریں۔ بلا سود قرضے بینک آف پنجاب کے ذریعے دیے جائیں گے۔ قرض حاصل کرنے کے لیےکچھ شرائط رکھی گئی ہیں جن میں درخواست گزار کی عمر 21 سے 57 سال، ٹیکس فائلر ہونا، اصل شناختی کارڈ اوردرخواست گزار پہ رجسٹرڈفون نمبر ہونا اور بزنس کے متعلق مکمل دستاویزات کا موجود ہونا شامل ہیں۔ قرض کی درخواست دینے کے لیے آپ کا کسی بزنس کے مالک ہونا یا بزنس شروع کرنے کامکمل ارادہ رکھنا ضروری ہے۔ قرض لینے کے لیے جن دستاویزات کی ضرورت ہے ان میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ سائز تصویر، ٹیکس ادائیگی کا ثبوت، کاروبار کے متعلق سرمایہ کاری اور منافع کی تفصیلات اور کاروبار کی زمین کے کاغذات ہونا شامل ہیں۔ درخواست میں اگر آپ دس لاکھ سے 50 لاکھ تک قرض لینا چاہتے ہیں تو آپ کو ذاتی ضمانت پرقرضہ دیا جائے گا اور اس کےلیے 5ہزار تک فیس جمع کروانی ہوگی ۔ اگر آپ 60 لاکھ سے 3 کروڑتک قرض لینا چاہتے ہیں تو آپ کومحفوظ ضمانت کی ضرورت ہوگی ۔ اس کے علاوہ 10 ہزار کی فیس جمع کروانی ہوگی۔ دونوں اقسام میں قرض حاصل کرنے والوں کو 5 سال تک کی بلا سود آسان اقساط میں قرض ادا کرنا ہوگا۔ قرض لینے کے لیے پنجاب حکومت کی آئی ٹی ویب سائٹ پر اپلائی کرنا ہوگا جس میں تمام تر دستاویزات کو اپلوڈ کرنا ہوگا۔ اپلائی کرنے کے بعد ریجسٹرڈ نمبر پر تصدیقی میسج آئے گا جس میں درخواست گزار کو ریجسٹریشن نمبر دیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں کسی قسم کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک ہیلپ لائن کا بھی اجرا کیا گیا ہے۔ صارفین 1786 پر فون کر کے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعلی مریم نواز شریف نے کہا کہ “پنجاب کی تاریخ میں اس سے پہلے ایسا کوئی پروگرام نہیں لایا گیا جس میں اس نوعیت تک آسان اقساط پر قرضہ دیا گیا ہو۔ پنجاب حکومت کی جانب سے یہ ایک انقلابی قدم ہے۔ ایسے اقدام پنجاب اور پاکستان کے لیے حیرت انگیز ترقی کا باعث بنیں گے۔ چھوٹے اور درمیانے سطح کے کاروبار ملکی معیشت میں اہم کردار اداکرتے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز میں صنعتیں لگانے کے لیے مزید سبسڈیز دی جائیں گی۔ ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز میں صنعتیں لگانے کے خواہشمند افراد کو 50 لاکھ روپے کے سولر سسٹم بھی مفت دیئے جائیں گے۔ یہ سکیمیں ایس ایم ایز کے لیے ایک نئی راہ ہموار کریں گی، جو پنجاب کو ایک خوشحال پنجاب بنائے گی۔ نوجوان کاروباری افراد ان سکیموں سے فائدہ اٹھا سکیں گے اور اپنے کاروبار کو وسعت دے سکیں گے تاکہ وہ معاشی ترقی میں اپنا فعال کردار ادا کر سکیں”۔
چھوٹے سے گاؤں سے معاشی انقلاب کا آغاز، پاکستان کا پورا گاؤں ’یوٹیوبر‘ بن گیا

ایک سال پہلے تک اپنی زمینوں پرکاشتکاری کرنے والے کسان ’یوٹیوبرز‘بن کر لاکھوں روپے کمانے لگے،ایک ماہ کی کمائی ایک دن میں ہی کرلیتے ہیں،یہ گاؤں ہے کہاں؟ یہ گاؤں کسی اور سیارے پرنہیں بلکہ اسی زمین پرہی واقع ہے،پاکستان کے جنوبی پنجاب میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں’قاضی عبدالرحمن کوریجہ’ہے جہاں بچے،بوڑھے اور جوان سبھی اسی کام پر لگے ہوئے ہیں،یہ گاؤں ایک منفرد انقلاب لارہا ہےاور اس کے پیچھے ایک نوجوان کا خواب چھپاہوا ہے جس نے اپنی زندگی بدلنے کے لیے یوٹیوب چینل بنانے کا فیصلہ کیاتھا۔ برطانوی خبررساں ادارے’بی بی سی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس گاؤں کا نوجوان جس کا نام حیدر علی ہے جو کبھی رحیم یار خان کے سرکاری ہسپتال میں آپریشن تھیٹر میں ٹیکنیشن کے طور پر کام کرتا تھا،اس وقت یہ نوجوان ایک یوٹیوب اسٹاربن چکا ہے۔ اس کا یوٹیوب چینل لاکھوں سبسکرائبرز کے ساتھ کامیابی کی مثال بن چکا ہے۔ حیدر علی نے بتایا کہ جب انہوں نے چینل بنانے کا فیصلہ کیا تو ان کے خاندان نے شدید مخالفت کی تھی، اوریہاں تک کہ مقامی علما سے فتویٰ بھی لیا تاکہ یہ فیصلہ اپنے خاندان کے لیے محفوظ ہو۔ لیکن وہ اپنے خواب کو حقیقت بنانے پر بضد تھے اور آخرکار اس کی محنت رنگ لائی۔ حیدرعلی کا کہنا ہے کہ “جب میری یوٹیوب چینل سے آمدنی شروع ہوئی تو میری زندگی بدل گئی۔ جس رقم کو میں پورے ایک سال میں سرکاری نوکری سے کماتا تھا وہ اب مجھے بعض اوقات ایک دن میں مل جاتی ہے۔” ان کے چینل پر ویڈیوز کی خاصیت انسانی ہمدردی، مزاح اور گاؤں کی زندگی کی عکاسی پر مبنی ہوتی ہیں جو کہ دیکھنے والوں کو بہت متاثر کرتی ہیں۔ حیدر علی کی اس کامیابی نے پورے گاؤں کو یوٹیوب کے میدان میں قدم رکھنے کی ترغیب دی اورا ب گاؤں کے ہر گھر میں کم از کم ایک شخص یوٹیوب پر مواد بنا رہا ہے۔ یہاں تک کہ گاؤں کے بزرگ بھی اس نئے کاروبار کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس گاؤں کےایک 80سالہ بزرگ نذیر احمد جو پہلے گاؤں میں مسجد اور گھر کے درمیان محدود تھے، اب وہ بھی یوٹیوب ویڈیوز میں حصہ لیتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی نے ان کی زندگی میں نیا جوش اورخوشی بھر دی ہے۔ ایک اور دلچسپ کہانی اسی گاؤں کے ایک نوجوان رومان احمد کی ہے جو دبئی میں ایک ڈینٹر کے طور پر کام کرتا تھا، وہ وہاں کی معاشی مشکلات اور اپنے گھر والوں کی مدد کی ضرورت کے باوجود اپنے وطن واپس آ گیا تھا اور حیدر علی کی طرح یوٹیوب چینل شروع کر لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند ماہ بعد ان کا چینل مونیٹائزہوگیا اور وہ بھی گولڈ بٹن کے مالک بن گئے۔اس نوجوان یوٹیوبر رومان احمد کا کہنا ہے کہ “دبئی میں رہ کر گزارہ مشکل تھا لیکن اب پاکستان میں اپنے یوٹیوب چینل کی مدد سے میری زندگی بدل گئی ہے۔” اس گاؤں کے ظہیر الحق، جو ایک سرکاری سکول ٹیچرہیں،انہوں نے بھی یوٹیوب چینل کے ذریعے وہ آمدنی حاصل کی ہے جو وہ اپنی چھ سالہ سرکاری ملازمت میں نہیں کما سکے تھے۔اور آج وہ اپنے بچوں کو بڑے نجی سکولز میں پڑھا رہے ہیں۔ ظہیر الحق نے یوٹیوب کے ذریعے مالی استحکام حاصل کیا ہے اور اب وہ اپنے سرکاری ملازمت سے گولڈن ہینڈ شیک حاصل کرنے پر غور کر رہے ہیں تاکہ مزید پیسے کما سکیں۔ یہ گاؤں نہ صرف سوشل میڈیا کے میدان میں کامیاب ہو چکا ہے بلکہ یہاں کے لوگ خود کو نئی مہارتوں میں ڈھالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ حیدر علی نے گاؤں کے نوجوانوں کو یوٹیوب کی دنیا سے روشناس کرایا اور اپنی ٹیم میں شامل کر لیا۔اس وقت گاؤں کے ہر فرد کو یوٹیوب کے ذریعے روزگار حاصل ہو رہا ہے اور سب کی زندگیوں میں خوشی کا نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ یہ کہانی صرف حیدر علی کی نہیں ہےبلکہ ایک پورے گاؤں کی ہے جس نے ایک چھوٹے سے خواب سے شروع ہو کر بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی محنت اور لگن نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر انسان کے پاس ہمت اور ارادہ ہو، تو دنیا کا کوئی بھی خواب پورا ہو سکتا ہے۔ آج اس گاؤں کا ہر بچہ، نوجوان اور بزرگ یوٹیوب کی کامیابی کی ایک کہانی بن چکا ہے اور یہ گاؤں دنیا بھر میں ایک مثال بن گیا ہے کہ کیسے سادہ سے لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی تقدیر بدل ڈالی۔
پہلے دن ہی جوبائیڈن کے 78حکم نامے منسوخ: ٹرمپ نے ریکارڈ قائم کردیا

نو منتحب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت سنبھالتے ہی ایک یا دو نہیں بلکہ 78 ایگزیکٹو آرڈرز پہ دستخط کر دیے ہیں۔ سوموار کے روز حلف اٹھانے والے صدر نے جانے والے ہم منصب جو بائیڈن کےبہت سے فیصلے منسوخ کیے ہیں۔ ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ کے فیصلوں کی منسوخی کے ساتھ کچھ نئے آرڈرز بھی جاری کیے ہیں، جن میں 6 جنوری 2021 سے متعلق جرائم، کیپیٹل ہل پر حملے، ٹک ٹاک پر پابندی میں تاخیر اور امریکی امیگریشن سسٹم کو بہتر بنانا شامل ہیں۔ اس اقدام کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ پہلے امریکی صدر بن گئے ہیں جنہوں نے اپنی مدت صدارت کے اولین روز اتنے زیادہ ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے ہیں۔ ٹرمپ نے سب سے پہلے 6 جنوری 2021 کو ہونے والے کیپیٹل حملے میں ملوث تقریباً 1500 افراد کو معافی دینے کا اعلان کیا۔ اس حملے میں ٹرمپ کے حامیوں نے واشنگٹن میں موجود کیپیٹل ہل کی اس عمارت پر اس وقت دھاوا بولا تھا جب یہاں 2020 میں ہونے والے الیکشن کے نتائج ترتیب دیے جا رہے تھے۔ اس الیکشن میں ٹرمپ کے بجائے جو بائیڈن جیتے تھے اس لیے ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل کی عمارت پر حملہ کیا۔ بائیڈن انتظامیہ نے حملے میں ملوث تقریباً 1500 افراد کو سزائیں سنائیں۔ ڈونلد ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی ان کی سزائیں معاف کر دیں جس سےیہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ اپنے حامیوں کو لے کر کتنے سنجیدہ ہیں۔ ٹرمپ نے ٹک ٹاک پر لگنے والی پابندی میں ’تاخیر کا آرڈر‘ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ٹک ٹک نے امریکا میں چلنا ہے تو اسے اپنی پالیساں تبدیل کرنی ہوں گی۔ اس کے لیے ٹک ٹاک کے 50 فیصد شئیرز امریکہ کے ہونے چاہیں۔ یہ فیصلہ بھی پچھلے سال اپریل میں ہوا جب سابق صدر جو بائیڈن نے 19 جنوری 2025 سے ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پابندی میں تاخیر کرنے کے آرڈر پر دستخط کیے اور کہا کہ چین کی بنائی گئی اس ایپلیکیشن کو امریکہ میں چلنے کے لیے کسی امریکی کو شیئرز بیچنے ہوں گے۔ امریکہ میں ٹک ٹاک کے 170 ملین صارفین ہیں۔ حکومت میں آنے کے پہلے روز ہی صدر ٹرمپ نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ یکطرفہ معاہدہ ہے۔ ٹرمپ نے 2030 تک الیکٹرک کاروں کی فروخت کو 50 فیصد تک لانے کے فیصلے کو بھی منسوخ کر دیا۔ ٹرمپ نے مصنوعی ذہانت پالیسی سےمتعلق بھی بائیڈن کا ایگزیکٹو آرڈر منسوخ کردیا۔ نئے صدر نے بارڈر سے متعلق نئی پالیسی واضح کرنے والے اس ایگزیکٹو آرڈر پر بھی دستخط کیے ہیں جو تارکین وطن کےداخلے سے متعلق ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کارٹلز کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔ امریکی صدر نے جنوبی سرحد پر نیشنل ایمرجنسی نافذ کرنے کے آرڈر پر بھی دستخط کیے۔ سوموار کو امریکی صدر نے اپنی کابینہ اور نائب کابینہ کا بھی اعلان کیا۔ نائب کابینہ ، کابینہ کی باضابطہ عہدوں پر تقرری تک کام کریں گے۔ یاد رہے کہ پیر کو نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری ہوئی جس کے بعد وہ امریکا کے 47 ویں صدر بن گئے۔ امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے صدر ٹرمپ سے عہدے کا حلف لیا۔
ایسا ضلع جہاں درختوں پر ’سونا‘ اگتا ہے

چین کے ضلع سنہوئی میں سنترے کے چھلکوں (چنپی) کی صنعت نے اقتصادی ترقی اور ثقافتی ورثے کو فروغ دیا، جس سے جدید طب اور کھانوں میں اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ چین کا ضلع سنہوئی، جو بظاہر ایک معمولی سا علاقہ نظر آتا ہے، حقیقت میں ایک قدیم ورثہ اورروشن مستقبل کا حامل ہے۔ اس کی گلیوں میں ہر سال خزاں اور سردیوں کے مہینوں میں ایک منفرد خوشبو پھیلتی ہے جو یہاں کی قدیم تاریخ اور خوشحال مستقبل کی گواہی دیتی ہے۔ سنہوئی، جو جنوبی گوانگ ڈونگ کے شہر جیانگ مین میں واقع ہے،اس شہر میں سنترے کے چھلکوں کی خوشبو یہاں کے رہائشیوں کے لیے “سونے” کی مانند ہے۔ کینٹونیز میں سنترہ اور سونا دونوں کا تلفظ ایک جیسی ہے۔ اس علاقے کی ترقی کی علامت شیشے کی بلند عمارتیں ہیں،جوچین کی جدید ترقی کو ظاہر کرتی ہیں۔ چنپی کی صنعت کی کامیابی سنہوئی کی خوشبو اور اس کے چھلکوں سے وابستہ ہے۔ سنترے تو دیگر علاقوں میں بھی اگائے جا سکتے ہیں مگر سنہوئی کا سنترہ اور خاص طور پر اس کے چھلکے ہی بہت بڑی قیمت رکھتے ہیں۔ چنپی کی تاریخی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، اس کا استعمال چین کی قدیم طب میں اور امپراتوروں کے درباروں میں کیا جاتا تھا اور یہ آج بھی روایتی چینی ادویات اور روزمرہ کے پکوانوں میں استعمال ہوتا ہے۔ چنپی کی کئی قسمیں ہیں، جیسے سبز سنترہ، ہلکے یا دوسرے درجے کا سرخ سنترہ، اور بڑا سرخ سنترہ جو دسمبر میں پک کر تیار ہوتا ہے۔ دوسری جانب چینی طب میں چنپی کو ہاضمہ کی بہتری، پھیپھڑوں کو مضبوط بنانے اور جسمانی صحت کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جدید تحقیق میں بھی یہ ثابت ہوا ہے کہ چنپی میں اینٹی آکسیڈنٹس اور اینٹی کینسراجزا پائے جاتے ہیں،جو کہ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے اور موٹاپے کی روک تھام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ چنپی کی قیمت میں اضافہ ایک اہم اقتصادی تبدیلی کا عکاس ہے۔ 1968 میں تیار ہونے والے انمول چنپی کی ہانگ کانگ میں فی کلو قیمت 75,000 ہانگ کانگی ڈالر (تقریباً 9,646 امریکی ڈالر) تک پہنچ گئی ہے۔ سنہوئی نے 2023 میں جیانگ مین شہر کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ایک چوتھائی حصہ حاصل کیا، اوراس کی چنپی کی صنعت کی مالیت 23 ارب یوان (3.2 ارب امریکی ڈالر) تک پہنچ چکی تھی۔ زہو ژی وی، جو خود ایک چنپی پروڈیوسر اور اس صنعت کے ایک اہم کھلاڑی ہیں وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ شروع میں ان کے کاروبار کو نظرانداز کیا گیا تھا، لیکن آج وہ چنپی کی صنعت میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ شیف لی چی وائی، جو ہانگ کانگ کے مشہور “دی لیگسی ہاؤس” میں کام کرتے ہیں انہوں نے بھی چنپی کو جدید کھانوں میں شامل کرنے کے لیے کئی سالوں سے تحقیق اور تجربات کیے ہیں۔ وہ ہر سال اپنے ریسٹورنٹ میں چنپی کے مختلف عمر کے چھلکوں سے تیار کردہ پکوانوں کا خصوصی مینو پیش کرتے ہیں جس میں 6 سے 50 سال پرانے چنپی شامل ہوتے ہیں۔ شیف لی چی وائی کا’سی این این‘سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ “چنپی کی عمر اور اس کی مخصوص خصوصیات ایک بہترین کھانے کے تجربے کے لیے ضروری ہیں جیسے کہ عمر رسیدہ چنپی میں خوشبو اور ذائقہ کی گہرائی ہوتی ہے جو اسے منفرد بناتی ہے”۔ ان کے پکوان صرف صحت کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ ذائقے کو اچھا بناتا ہےاور ثقافتی ورثہ کو بھی اجاگر کرتا ہیں۔ سنہوئی میں چنپی کی صنعت کی کامیابی نے نئی نسل کے کاروباری افراد کے لیے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔ زہو کے مطابق اس صنعت کا مستقبل مزید ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں نئی اختراعات اور مصنوعات کی تیاری کے امکانات ہیں۔ سنہوئی کے دورے کے دوران شیف لی نے اپنی یادیں شیئر کیں کہ کس طرح بچپن میں وہ چنپی کے چھلکے کو معمولی چیز سمجھتے تھے اور اب ان کی قیمتوں میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ وہ نہ صرف صحت کے فوائد کے لیے بلکہ ایک لاگت کی صورت میں بھی قیمتی بن چکا ہے۔
کیا پاکستان میں ’تیرہواں‘ موسم جنم لے رہا ہے؟

جوں جوں وقت گزررہا ہے موسم کے تیور بدل رہے ہیں،سردی ہوتی ہے تو خوب ٹھنڈ لگتی ہے،گرمی ہوتودھوپ میں اتنی تپش ہوتی ہے کہ’جہنم‘کا گماں ہوتا ہے،بارش ہوتومیدانی اور پہاڑی علاقوں میں سیلاب آجاتے ہیں نہ ہونے پر آئے تو خشک سالی کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے،سردی اور گرمی کے موسم سکڑ کر ایک سے ڈیڑھ ماہ کے دورانیے پر رک سے گئے ہیں،بات پاکستان کی کی جائے تو یہاں چار ہی موسم ہیں جو سرد،گرم،بہاراورخزاں،کیا کوئی نیا موسم جنم لے رہا ہے؟ سردیاں شروع ہوتے ہی پاکستان کے تاریخی شہرلاہوراوراس کےگردونواح میں دھند چھا جاتی ہے،یہ آنکھوں میں جلن بھی پیدا کرتی ہے اور ’آنسو‘بھی لاتی ہے،گزشتہ 10 سال سے یہی ہورہا ہے مگر2024ء میں تو اس کی شدت میں کچھ زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا،سموگ کا موسم اکتوبر کے آخری ہفتے میں شروع ہوانومبر تک جاری رہا،نومبر کے پہلے ہفتے تو لاہور کی ائیر کوالٹی شدید متاثر ہوئی،لاہور نے کئی بار نمبرون ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ 10 نومبر کو ناسا نے ایک تصویر جاری کی جو پاکستان کیلئے پریشان کن تھی اور لاہوریوں کیلئے تو حیران کن۔اس تصویر میں دیکھا گیا کہ پاکستان کا صوبہ پنجاب گہرے بادلوں کی لپیٹ میں ہے،اس تصویرکو دنیا کے میڈیا نے دکھایا،دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں کبھی لاہور تو کبھی بھارت کا دارالحکومت دہلی نمبرون رہا،اسی طرح پاکستانی پنجاب کے دیگر شہر فیصل آباد،ملتان اور خیبر پختونخوا کا شہرپشاور بھی اس دوڑ میں شامل رہا ۔ شکاگو یونیورسٹی کے ماہرین نے خبردارکیا ہے کہ فضائی آلودگی یوں ہی بڑھتی رہی تو بڑے شہرانسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے،ایسی صورتحال میں انسانوں کی اوسط زندگی پونے چارسال تک کم ہوجائے گی ۔ کورونا کی طرح سموگ کے بارے میں عجیب و غریب طرح کے خیالات ہیں مگرماہرین کے مطابق سموگ کا لفظ پہلی بار دنیا میں 1905ءمیں استعمال ہوا،اس وقت برطانیہ کے شہرسموگ سے بہت متاثر ہوئے تھے،1909ء میں صرف گلاسگو اور ایڈنبرا میں ایک ہزار سے زیادہ افرادلقمہ اجل بن گئے تھے،آج جدید دور میں صنعتی ممالک نہیں بلکہ بنگلہ دیشں،پاکستان اور بھارت بالترتیب آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب پاکستان،بھارت اور بنگلہ دیش صنعتی ملک نہیں تو پھر یہاں سموگ کیسے آئی اور کیا ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ داربھی یہی ممالک ہیں یا کوئی اور؟ سابق وزیرموسمیاتی تبدیلی سینیٹرشیری رحمـٰن نے کہا تھا کہ ’موسمیاتی تبدیلی صرف پاکستان کا نہیں عالمی مسئلہ ہے‘۔یقیناً یہ عالمی مسئلہ ہے پاکستان کا نہیں ہے،ذمہ دار بھی وہی ہیں جوفضا کو برباد کررہے ہیں،اسی طرح سابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کوپ 27عالمی کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلی کوعالمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کمزور ممالک کی مدد کرنے کی تجویزدی تھی ۔ موسمیاتی تبدیلیوں پرتحقیق کرنے والے ادارے گلوبل چینج امپیکٹ سینٹر(جی سی آئی ایس سی)کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی نبدیلیوں سے پتا چلتا ہے کہ آنے والی دہائیوں میں پاکستان کے اوسط درجہ حرارت میں اضافے کی نسبت زیادہ تیزی سے رونما ہوگی۔ پاکستان کے موسم پر برسوں سے نظررکھنے والے عالمی تھنک ٹینک’جرمن واچ‘نے پاکستان کوان 10 ممالک میں شامل کررکھاہے جو شدید متاثر ہیں،اس ادارے کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی کے ہر یونٹ پراعشاریہ 52 فیصد نقصان موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہورہا ہے۔ اینڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق محکمہ موسمیات کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول بتاتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی سے پاکستان کے پہاڑی علاقے گلگت بلتستان اور چترال میں برف باری کے اوقات تبدیل ہوئے جوبرفباری دسمبر اور جنوری میں ہوتی تھی اب فروری اور مارچ میں ہورہی ہے،اسی طرح سندھ اور بلوچستان بارش نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی کا شکار رہے ہیں،اب چونکہ زیادہ بارشیں ہورہی ہیں تو ان علاقوں میں سیلاب آرہے ہیں۔ موسم تو پاکستان میں چارہی ہیں مگردعویٰ تو یہ بھی ہے کہ موسم12 ہیں،موسم چار ہوں یا 12 مگرتبدیل ہوتی صورتحال تشویشناک ہے،پاکستان کی وفاقی اورپنجاب کی حکومت اپنے تئیں کوششیں بھی کررہی ہیں اور دعوے بھی مگر نتائج خاطر خواہ برآمد ہوتے نظر نہیں آتے۔یہ مسئلہ تب تک مسئلہ رہ سکتا ہے جب تو عالمی سطح پر کوششیں تیز نہیں کی جاتیں۔