پاکستان کرکٹ ٹیم کا زوال: ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ میں بڑی شکست کے بعد سب کچھ ختم

پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے 2025 کا آغاز ایک اور تکلیف دہ حقیقت کے ساتھ ہوا ہے جس نے ٹیم کو عالمی ٹیسٹ کرکٹ میں نہ صرف پچھلے 35 برسوں کا بدترین ریکارڈ یاد دلا دیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ میں بھی شدید زوال کی گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں 120 رنز کی بدترین شکست نے پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کیا۔ یہ پاکستانی کرکٹ کی وہ بدترین گھڑی تھی جب ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈ پر ایک اور ٹیسٹ میچ ہار گئی۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف 120 رنز کی شکست نہ صرف پاکستان کرکٹ کے شائقین کے لیے ایک جھٹکا تھی بلکہ اس نے پاکستان کو آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئین شپ کے اسٹینڈنگ میں بھی آخری نمبر پر پہنچا دیا۔ پاکستان کی کارکردگی کا یہ گراؤنڈ پر مکمل طور پر زوال دکھانے والا منظر تھا اور اس میچ کے بعد پاکستانی ٹیم ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ کے پوائنٹس ٹیبل میں آخری پوزیشن پر پہنچ گئی۔ 2023 سے 2025 کے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ کے دوران گرین شرٹس نے 14 میچز میں سے صرف 5 میچز جیتے جبکہ باقی میچز میں انہیں ناکامی کا سامنا رہا۔ سلو اوور ریٹ کے باعث بھی ٹیم کو پوائنٹس کی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ان کی مجموعی پرسنٹیج محض 27.98 پر پہنچ گئی۔ گزشتہ دہائی میں پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کا سفر کسی بھی لحاظ سے قابلِ فخر نہیں رہا۔  2015 سے 2025 تک پاکستان کا ریکارڈ مسلسل ناقص رہا ہے۔ 2015 کے بعد پاکستان نے اپنے 40% ٹیسٹ میچز ہی جیتے، اور اس دوران ان کے ہوم گراؤنڈ پر غیر متوقع شکستیں معمول بن گئیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم نے جس طرح کی کارکردگی اس وقت دکھائی، اس سے شائقین کرکٹ اور سابق کھلاڑیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی جانب سے اس میچ میں انتہائی عمدہ کارکردگی دیکھنے کو ملی اور ان کے کھلاڑیوں نے پاکستانی ٹیم کو ہرا کر اپنے ہوم گراؤنڈ کی تقدیر کو بہتر کیا۔ ویسٹ انڈیز کے اس شاندار سفر کا اختتام ایونٹ میں آٹھویں پوزیشن پر ہوا۔ پاکستانی کرکٹ کی یہ بدترین کارکردگی کسی بھی طرح سے نئی نہیں ہے لیکن اس میں اب نیا عنصر یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ میں فائنل تک پہنچنے کی امیدیں پوری طرح ختم ہوگئی ہیں۔ پاکستان کے اس سفر کے باقی حصے میں اب کوئی بھی سیریز شیڈول نہیں ہے اور ٹیم کو اپنی ٹیسٹ کرکٹ کی میراث کو سنبھالنے کے لیے مزید مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اس صورتحال نے جنوبی افریقہ کو سرفہرست رکھا جبکہ ان کا مقابلہ فائنل میں آسٹریلیا سے ہوگا۔ پاکستان کے لیے یہ وقت سوچی سمجھی حکمت عملی کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے اور یہ سوال اب سب کے ذہن میں ہے کہ آیا پاکستانی ٹیم اپنے ٹیسٹ کرکٹ کے زوال کا خاتمہ کر سکے گی یا یوں ہی ماضی کی طرح شائیقین کرکٹ بس مایوسی کا منہ دیکھیں گے؟

گوگل میپس کا ‘خلیج میکسیکو’ کا نام تبدیل کرکے ‘خلیج امریکا’ رکھنے کا فیصلہ

گوگل نے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ جب امریکی جغرافیائی ناموں کا نظام اپ ڈیٹ ہوگا، تو گوگل میپس پر “خلیج میکسیکو” کا نام بدل کر “خلیج امریکا” رکھا جائے گا۔ یہ تبدیلی صرف امریکا میں نظر آئے گی، لیکن میکسیکو میں “خلیج میکسیکو” کا نام برقرار رہے گا۔ جبکہ دوسرے ممالک میں صارفین دونوں نام دیکھ سکیں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے محکمہ داخلہ نے جمعے کے روز اعلان کیا تھا کہ اس نے خلیج میکسیکو کا نام بدل کر “خلیج امریکا” رکھا ہے، اور الاسکا کی بلند ترین چوٹی “ڈینالی” کا نام پھر سے “ماؤنٹ میک کینلے” رکھ دیا ہے۔ گوگل میپس، جو الفابیٹ (جی او جی ایل) کے تحت ہے، ان تبدیلیوں کو اپنے نقشوں میں بھی شامل کرے گا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد یہ نام تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔ امریکی محکمہ داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ صدر کی ہدایات کے مطابق “خلیج میکسیکو” اب باضابطہ طور پر “خلیج امریکا” کہلائے گا اور شمالی امریکا کی بلند ترین چوٹی کا نام ایک بار پھر ماؤنٹ میک کینلے رکھا جائے گا۔ میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام نے اس ماہ کے آغاز میں مذاق میں تجویز دی تھی کہ شمالی امریکا کا نام بدل کر “میکسیکن امریکا” رکھ دینا چاہیے۔ گوگل کے ترجمان نے خبر رساں ادارے ’روئٹرز‘ کو بتایا کہ کمپنی اپنے نقشوں میں مقامی روایات کے مطابق ناموں کا استعمال کرتی ہے۔ اس طرح، جاپان اور جنوبی کوریا کے قریب سمندری پانی کو “بحیرہ جاپان (مشرقی بحیرہ)” کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ 2012 میں ایران نے گوگل پر دباؤ ڈالا تھا اور گوگل کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ جب گوگل نے “خلیج فارس” کا نام اپنے نقشے سے ہٹا دیا تھا اور ایران اور جزیرہ نما عرب کے درمیان سمندر کا نام نہیں دیا تھا۔ اب وہ پانی “خلیج فارس (خلیج عرب)” کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے۔

انڈین فاسٹ باؤلر نے ٹیسٹ کرکٹ میں نئی تاریخ رقم کردی

پاکستان کرکٹ ٹیم کی طرح بھارت کے باؤلنگ سپر اسٹار، وقار یونس یا عمران خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، بھارتی فاسٹ باؤلر جسپریت بمراہ نے 2024 کے آئی سی سی مردوں کے ٹیسٹ کرکٹر آف دی ایئر کا اعزاز اپنے نام کر لیا ہے۔ بمراہ نے اپنی غیر معمولی کارکردگی سے دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کو محظوظ کیا اور اس بات کو ثابت کیا کہ وہ کسی بھی حال میں دنیا کے بہترین باؤلر بننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ 2024 کے دوران جسپریت بمراہ کا کھیل نہ صرف بھارت کے لیے بلکہ عالمی کرکٹ کے لیے بھی ایک سنہری لمحہ ثابت ہوا۔ فاسٹ باؤلر نے اپنے کیریئر کا بہترین سال گزارا، جس میں نہ صرف انہوں نے کئی شاندار ریکارڈز بنائے بلکہ اس کھیل کی بہترین سطح پر واپس آکر کرکٹ کے تمام حلقوں میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ بمراہ نے 2024 کے دوران 71 وکٹیں حاصل کیں، جو کہ ٹیسٹ کرکٹ کے سال 2024 میں سب سے زیادہ وکٹیں تھیں۔ ان 71 وکٹوں کے ساتھ بمراہ نے اپنے کیریئر کے دوران ایک اہم سنگ میل عبور کیا اور بھارتی تاریخ کے ان چند باؤلرز میں شامل ہو گئے جنہوں نے ایک کیلنڈر سال میں 70 سے زیادہ وکٹیں حاصل کیں۔ ان کے اس شاندار کارنامے کے ساتھ وہ کپیل دیو، انیل کمبلے اور روی چندرن ایشون جیسے عظیم کھلاڑیوں کے ہم پلہ ہو گئے ہیں۔ جسپریت بمراہ کا 2024 کا سفر شاندار رہا، انہوں نے اپنے کیریئر کی شروعات 2023 کے آخر میں کی تھی جب وہ کئی ماہ کے عرصے بعد واپس آئے تھے۔ اس دوران انہیں کمر کی چوٹ کا سامنا تھا، مگر بمراہ کی واپسی نے ثابت کیا کہ وہ ایک غیر معمولی کھلاڑی ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے ابتدائی میچز میں ہی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بمراہ نے اپنی ٹیم کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا اور نہ صرف بھارت کے بلکہ عالمی کرکٹ کے مقبول ترین باؤلرز میں اپنا نام درج کرایا۔ بھارت نے انگلینڈ اور بنگلہ دیش کے خلاف اپنے گھریلو میدانوں پر سیریز جیتیں اور پھر جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے دوروں پر بھی بمراہ نے اپنی باؤلنگ کی دھاک بٹھائی۔ ان کی شاندار کارکردگی نے بھارت کو آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کی دوڑ میں بھی رکھا۔ بمراہ کا 2024 کا ریکارڈ لاجواب رہا، انہوں نے 13 میچز میں 71 وکٹیں حاصل کیں اور اس دوران 357 اوورز کرائے۔ اس کے باوجود، بمراہ کا اوسط صرف 2.96 کا رہا، جو کہ ایک تیز باؤلر کے لیے ایک غیر معمولی کارکردگی ہے۔ ان کا اوسط 14.92 رہا اور سال کے آخر تک ان کا اسٹرائیک ریشو صرف 30.1 تھا جو کہ اس دور کے کرکٹ میں ایک شاندار اعداد و شمار ہیں۔ انہوں نے 2024 کی شروعات جنوبی افریقہ کے خلاف کیپ ٹاؤن میں جیت کے ساتھ کی، جہاں بمراہ نے دو اننگز میں آٹھ وکٹیں حاصل کیں اور بھارت کو شاندار کامیابی دلائی۔ اس کے بعد بھارت کے پانچ میچز کے سیریز میں انگلینڈ کے خلاف بمراہ نے 19 وکٹیں حاصل کیں۔ لیکن ان کی سب سے بڑی کامیابی آسٹریلیا کے خلاف بیڈر گاؤسکر سیریز کے دوران آئی، جہاں بمراہ نے پانچ میچز میں 32 وکٹیں حاصل کیں اور سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا۔ جاسپریت بمراہ کی سب سے یادگار کارکردگی 2024 میں پرتھ میں آسٹریلیا کے خلاف آئی، جب انہوں نے 5/30 کے شاندار باؤلنگ کے ساتھ بھارتی ٹیم کی میچ میں واپسی کرائی اور ٹیم کو 295 رن کے فرق سے فتح دلائی۔ اس جیت کے ساتھ بمراہ نے اپنی قیادت کی اہمیت کو بھی ثابت کیا، کیونکہ اس میچ میں بھارت کے کپتان روہت شرما موجود نہیں تھے اور بمراہ نے بھرپور قیادت کا مظاہرہ کیا۔ بمراہ نے اس سال عالمی کرکٹ میں ایک نیا معیار قائم کیا اور اپنے کیریئر کو ایک نئی بلندی تک پہنچایا۔

“میرا خیال ہے ہم حاصل کر لیں گے” ٹرمپ گرین لینڈ کو خریدنے کے خواہاں،

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ گرین لینڈ کو امریکا کے کنٹرول میں آجانا چاہیے۔انہوں نے گرین لینڈ کی زمین کو امریکی قبضے میں لینے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ہفتے کے روز ائیر فورس ون کے ریپورٹرز سے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ” میرا خیال ہے ہم یہ حاصل کرنے جا رہے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” گرین لینڈ میں موجود ستاون ہزار رہائشی “ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں”۔ ان کے کمنٹس تب آئے جب ڈینمارک کے وزیر اعظم میٹے فریڈیرکسن نے اسرار کیا کہ گرین لینڈ کسی کی بھی ایک فون کال پر فروخت ہونے کے لیے نہیں ہے۔ ٹرمپ نے 2019 کے پہلے دورِ حکومت میں بھی آرکٹک سرزمین خریدنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔ انہوں نےکہا کہ گرین لینڈ کا امریکی کنٹرول میں آنا عالمی تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ صدارتی جہاز کے پریس روم میں جب ٹرمپ سے جزیرے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا” میرا خیال ہے لوگ ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ” میں نہیں جانتا گرین لینڈ کے پاس کیا جواز ہے مگر یہ بہت غیر دوستانہ کام ہوگا اگر وہ ہمیں  اس کام کے لیے اجازت نہیں دیں گے کیوں کہ پوری دنیا کے لیے بہتر ہے”۔ ٹرمپ نے کہا” میرا خیال ہے ہم گرین لینڈ کو حاصل کر لیں گے  کیوں کہ یہ دنیا کی آزادی کا معاملہ ہے”۔”اس کا امریکا سے صرف اس لیے تعلق ہے کیوں کہ صرف ہم ہیں جو انہیں آزادی فراہم کر سکتے ہیں۔” اگرچہ اس معاملے میں ٹرمپ پر اعتماد نظر آتے ہیں مگرگرین لینڈ اور ڈینمارک  کے وزراِاعظم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ یہ جزیرہ فروخت ہونے کے لیے نہیں ہے۔” گرین لینڈ کے وزیراعظم میوٹ ایگٹ نے کہا کہ اگرچہ ہم چاہتے ہیں کہ امریکا کے ساتھ مزید شراکت داری کے ساتھ کام کریں لیکن گرین لینڈ کے زمین صرف گرین لینڈ کے لیے ہے۔ اسی دوران ڈینمارک کے وزیر اعظم فریڈیرکسن نے کہا کہ گرین لینڈ صرف گرین لینڈ میں رہنے والوں کے لیے ہے اور صرف مقامی آبادی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ ٹرمپ کے مطابق وہ کئی طریقوں سے گرین لینڈ کو اپنے سر زمین میں شامل کر سکتے ہیں۔اس کےلیے چاہے وہ فوج استعمال کریں یا معاشی طاقت استومال کریں۔ ان کے حالیہ کمنٹس کی وجہ سے ڈینمارک کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ میں ہل چل مچ گئی ہے جس کی وجہ سے ملک میں اعلی سطح کی میٹنگز ہو رہی ہیں۔

کیلیفورنیا کی آتشزدگی سے سبق: لاس اینجلس کیسے دوبارہ تعمیر ہوسکتا ہے؟

سات سال پہلے شمالی کیلیفورنیا کے سونوما کاؤنٹی میں ہونے والی ‘ٹبز فائر’ نے سنیٹر روزا کے ‘کافی پارک’ سبڈویژن کو تباہ کر دیا تھا جو کہ پیسیفک پیلیسیڈز اور آلٹڈینا جیسے مضافاتی علاقوں کی طرح تھا۔ اس آگ نے ایک چھے لین والی فری وے کو عبور کیا اور تقریباً 5000 گھروں کو جلا کر خاک کر دیا جن میں سے 1500 گھر صرف کافی پارک میں تھے۔ یہ 2017 میں کیلیفورنیا کا سب سے مہنگا جنگلاتی آتشزدگی سانحہ بن گیا تھا۔ لیکن اس تباہی کے بعد جو سب سے اہم بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ اگرچہ سفر طویل اور مشکلات سے بھرپور تھا، لیکن جب کمیونٹی اکٹھا ہوتی ہے اور مقامی حکومت صحیح طریقے سے اقدامات کرتی ہے تو دوبارہ تعمیر ممکن ہے۔ صرف تین سال میں ہی ‘کافی پارک’ کے 80% تباہ شدہ گھروں کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی اور وہ دوبارہ آباد ہو گئے تھے۔ یہ تجربات جو کافی پارک اور سینیٹر روزا کے رہائشیوں نے محسوس کیے، آج لاس اینجلس کے مختلف علاقوں جیسے پیسیفک پیلیسیڈز اور آلٹڈینا کے لیے ایک سبق ہیں، جہاں رواں ماہ کی آتشزدگی میں 16,000 سے زیادہ گھروں اور دیگر ڈھانچوں کو نقصان پہنچا ہے، اور 28 افراد کی جانیں گئیں۔ پیسیفک پیلیسیڈز اور آلٹڈینا کے مکینوں کو بھی اسی نوعیت کے سوالات کا سامنا ہے جو 2017 میں سینیٹر روزا کے رہائشیوں کو درپیش تھے۔ “ہم کہاں سے آغاز کریں؟” آلٹڈینا کے رہائشی ڈیوڈ کوویلیوسکی نے کہا کہ “یہ تو جنگ کے میدان جیسا دکھتا ہے” وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انشورنس کتنا معاوضہ دے گا اور وہ نئے، زیادہ قیمت والے مواد کے ساتھ اپنے گھروں کی تعمیر کیسے کریں گے۔ انکا کہنا تھا کہ “یہ سب ایک ساتھ کیسے مکمل ہوگا؟ اتنے گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی صلاحیت کس کے پاس ہوگی؟“ ڈیمن کلاپٹن کے ذہن میں بھی یہی سوالات تھے جب وہ 2017 میں اپنی گھر کی آتشزدگی کے بعد اپنی بیوی اور چار بلیوں کے ساتھ اپنی جان بچا کر باہر نکلے تھے۔ جیسے ہی ایمرجنسی خدمات نے لاشوں کی تلاش کے لیے کتوں کا استعمال شروع کیا اور زہریلے مواد کو صاف کیا، رہائشیوں کو اپنے گھروں میں واپس جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے بعد جو سب سے مشکل مرحلہ تھا وہ تھا ملبے کا صفایا، جس میں کئی ماہ لگے۔ سینیٹر روزا میں رہائشیوں کے پاس دو آپشن تھے ایک وفاقی ایجنسی کی طرف سے منظور شدہ ملبہ صفائی پروگرام یا نجی ٹھیکیدار کی خدمات، جو زیادہ مہنگے تھے لیکن ان کے پاس ضروری تصدیقیں موجود تھیں۔ مقامی حکام نے بتایا کہ کیلیفورنیا میں آتشزدگی کے متاثرہ علاقوں میں اب اسی طرح کے ملبہ صفائی کے آپشنز فراہم کیے جا رہے ہیں، جن میں سب سے پہلے خطرناک مواد کی صفائی شامل ہے، جیسے کہ برقی گاڑیوں کے بیٹریاں۔ اس کے بعد تعمیراتی اجازت ناموں اور مروجہ ضوابط کی پیچیدگیوں کا سامنا ہوتا ہے جسے اب تیز کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سینیٹر روزا میں جب ملبہ صاف ہوا تو رہائشیوں کے لیے ایک نئے سرے سے شروع کرنے کا موقع آیا۔ اس دوران مقامی کمیونٹی نے اجتماعی طور پر مل کر کئی مشکلات کا سامنا کیا۔ ‘اوکریپکئی’ جو ایک غیر منافع بخش تنظیم کے بانی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ “یہ ہمیشہ آسان ہوتا ہے جب آپ 100 یا 500 لوگوں کی مدد کے ساتھ سوالات پوچھتے ہیں۔” وہ مزید کہتے ہیں کہ سینیٹر روزا کے رہائشیوں نے سماجی ملاقاتوں اور مقامی نیوز لیٹرز کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہ کر اپنے مسائل حل کیے۔ مقامی حکومت نے بھی اس بات کو سمجھا اور عمارت کی منصوبہ بندی میں آسانی کے لیے اقدامات کیے، جس میں شہر میں ایک نیا ‘مستحکم زون’ بنایا گیا جس میں آتشزدگی کے بعد کی تعمیراتی ضروریات کو کم کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، کچھ تعمیراتی ڈیزائنز کو پہلے ہی منظور کر لیا گیا تاکہ رہائشی تیزی سے تعمیر شروع کر سکیں۔ تاہم، اس تعمیر نو کے عمل میں بھی مشکلات تھیں۔ کچھ افراد جیسے کیرول میک ہیل نے اپنا بچت کا 100,000 ڈالر کھو دیا جب ایک ٹھیکیدار نے پیشگی رقم وصول کی لیکن کام مکمل نہیں کیا۔ میک ہیل نے ایک نئے ٹھیکیدار کے ساتھ دوبارہ کام شروع کیا لیکن ہر فیصلہ ایک کربناک مرحلہ تھا۔ انکا کہنا تھا کہ “ہم ہر روز 10,000 ڈالر کے فیصلے کر رہے تھے مگرآخرکار ہم نے سب کچھ مکمل کیا“۔ کچھ افراد جیسے کلاپٹن نے اپنے منصوبوں میں خود تبدیلیاں کیں اور عمومی ٹھیکیدار بن گئے۔ ان کے مطابق “یہ ایک مسلسل جدوجہد تھی ہر نیا قدم ایک نیا چیلنج بن کر آتا تھا لیکن یہ اس بات کا اطمینان تھا کہ اب آپ کے پاس کچھ کنٹرول ہے۔“ لاس اینجلس کے متاثرہ علاقوں کے لیے یہ تجربات ایک رہنمائی کا کام کر سکتے ہیں۔ حکومتی سطح پر تیز اقدامات اور مقامی سطح پر کمیونٹی کا ساتھ، دونوں مل کر دوبارہ تعمیر کے عمل کو تیز اور کم پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔ ریاستی اور مقامی حکام کے تعاون سے اسی طرح کی کامیاب حکمت عملی کو اپنانا ممکن ہے تاکہ پیسیفک پیلیسیڈز اور آلٹڈینا جیسے متاثرہ علاقے جلد ہی اپنی مکمل بحالی کی طرف قدم بڑھا سکیں۔ ماضی یہ ثابت کرتا ہے کہ قدرتی آفات کے باوجود انسانوں کی عزم، حکومتی مدد اور اجتماعی کارروائی سے سب کچھ دوبارہ تعمیر کیا جا سکتا ہے۔

ڈیپ سیک: چیٹ جی پی ٹی کو مات دینے والا چینی اے آئی ماڈل

چین کی تیار کردہ ایک نئی مصنوعی ذہانت کی ایپ “ڈیپ سیک” نے گزشتہ چند ہفتوں میں ایک نیا انقلاب برپا کر دیا ہے اور اس کی مقبولیت آسمان کو چھو رہی ہے۔ اس ایپ نے نہ صرف چیٹ جی پی ٹی جیسے مشہور حریفوں کو پیچھے چھوڑا ہے بلکہ امریکا، برطانیہ اور چین کے ایپل ایپ سٹور پر بھی ٹاپ ریٹیڈ مفت ایپلی کیشن کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ رواں برس جنوری میں اپنے لانچ کے بعد سے اس ایپ کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ڈیپ سیک کی کامیابی نے مصنوعی ذہانت کی صنعت میں ایک نیا تنقیدی سوال اٹھا دیا ہے جیسا کہ ‘کیا امریکا اب بھی اے آئی کا لیڈر ہے؟ کیا چین نے اپنے طور پر اس صنعت میں امریکی برتری کو چیلنج کر دیا ہے؟ یہ چینی ایپ اوپن سورس ‘ڈیپ سیک وی تھری’ ماڈل پر ڈیزائن کی گئی ہے جسے محققین کے مطابق چھ ملین ڈالر کی لاگت میں تیار کیا گیا ہے۔ یہ تخمینے اس بات کا واضح اشارہ دیتے ہیں کہ چین میں ای آئی کے ماڈلز تیار کرنے کی قیمت وہ نہیں رہی جو پہلے سمجھا جاتا تھا۔ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر ایپلی کیشنز پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے مگر ڈیپ سیک کم لاگت اور اعلیٰ معیار کی بدولت اس میدان میں سبقت لے گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیپ سیک کے کامیاب لانچ نے ای آئی کی صنعت میں ایک نیا ابھار پیدا کر دیا ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کا ماڈل چیٹ جی پی ٹی جیسے جدید ترین ماڈلز کے برابر ہے۔ ڈیپ سیک ‘آر ون’ جو کہ کمپنی کا تازہ ترین ماڈل ہے یہ ریاضی، کوڈنگ اور عمومی زبان کے استدلال جیسے پیچیدہ کاموں میں مہارت رکھتا ہے۔ اس ماڈل کی کامیابی کا موازنہ 1957 میں سوویت یونین کے پہلے مصنوعی زمینی سیٹلائٹ ‘سپوٹنک’ سے کیا جا رہا ہے جس نے اس وقت دنیا کو چونکا دیا تھا۔ دنیا کی مشہور ٹیکنالوجی کمپنیوں اینویڈیا، مائیکروسوفٹ اور میٹا کے شئیرز میں شدید گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔ اسی طرح یورپی کمپنیوں کے شئیرز کی قیمتیں بھی گر گئی ہیں۔ ایک ڈچ چپ کمپنی اے ایس ایم ایل کے شئیرز میں 10 فیصد سے زیادہ کمی آئی اور سیمنز انرجی جو کہ ای آئی ہارڈ ویئر بناتی ہے اس کمپنی کے شئیرز کی قیمت میں 21 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ دوسری جانب سٹی انڈیکس کی سینئر مارکیٹ تجزیہ کار فیونا سنکوٹا کا کہنا ہے کہ “کم قیمت والے چینی ورژن کو پہلے اتنی اہمیت نہیں دی جا رہی تھی مگر اس کی لانچ کے بعد مارکیٹ میں ایک نئی پریشانی دیکھنے کو ملی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ کو اچانک یہ کم لاگت والا ماڈل مل جائے تو اس سے حریفوں کے منافع پر اثر پڑے گا خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ وہ پہلے ہی زیادہ مہنگے ماڈلز اور انفراسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ چینی اے آئی ماڈلز کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ وہ ترقی ہے جس کا سامنا امریکی کمپنیوں کو ایک دن ضرور کرنا پڑے گا۔ سنگاپور میں مقیم ٹیکنالوجی ایکویٹی ایڈوائزر وے سرن لنگ نے خبردار کیا ہے کہ “یہ تبدیلی پوری ای آئی سپلائی چین میں سرمایہ کاری کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔” وہ کہتے ہیں کہ اس نئے کم لاگت چینی ماڈل نے امریکا کی بڑی اے آئی کمپنیوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ تاہم سٹی بینک کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کے پاس اب بھی جدید ترین چپس تک رسائی ہے اور یہ بات چینی کمپنیوں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ امریکا نے 2021 میں چین پر جدید چپس کی فروخت پر پابندیاں عائد کی تھیں اور اس کے بعد چینی کمپنیوں کو نئے طریقوں پر تجربات کرنے پڑے ہیں۔ یہ چینی کمپنیوں کا ذہانت سے کام لینے کا نتیجہ ہے کہ وہ کم کمپیوٹنگ پاور والے ماڈلز تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جو نہ صرف سستے ہیں بلکہ ان کی کارکردگی بھی اعلیٰ ہے۔ ڈیپ سیک کی بنیاد 2023 میں چین کے شہر ہانگزو میں لیانگ وینفینگ نے رکھی تھی۔ 40 سالہ لیانگ ایک تجربہ کار انجینئر ہیں جنہوں نے چین میں ایک اسٹور قائم کر رکھا تھا جہاں ایونیڈیا اے 100 چپس بیچی جاتی تھیں۔ جب چین پر یہ چپس درآمد کرنے کی پابندی عائد کی گئی تو انہوں نے سستی چپس کے ساتھ اپنے اے آئی ماڈلز کی تیاری کا عمل شروع کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس وقت 50 ہزار جدید چپس موجود تھیں جنہیں انہوں نے کم لاگت والی سستی چپس کے ساتھ جوڑ کر ڈیپ سیک کو کامیابی کے ساتھ لانچ کیا۔ ڈیپ سیک کی کامیابی نے صرف چین میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی مصنوعی ذہانت کے میدان میں نئے سوالات اور چیلنجز کو جنم دیا ہے،جو نہ صرف بڑی امریکی ٹیک کمپنیوں کے لیے ایک چیلنج ہے بلکہ عالمی ای آئی مارکیٹ کے لیے بھی ایک سنگین موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین اس میدان میں امریکا کی برتری کو چیلنج کر سکے گا؟

کوکا کولا نے یورپ میں اپنے مشروبات کی ترسیل روک دی

کوکا کولا نے یورپ کے کچھ ممالک میں اپنے مشروبات کی ترسیل روک دی ہے کیونکہ وہاں کلوریٹ نامی کیمیکل زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔ کمپنی نے ایک بیان میں کہا کہ ترسیل روکنے کا مرکز بیلجیئم، لکسمبرگ اور ہالینڈ تھا۔ ان  کا مزید کہا کہ صرف پانچ پروڈکٹ لائنیں برطانیہ بھیجی گئی ہیں، اور وہ پہلے ہی فروخت ہو چکی ہیں۔ کوکا کولا کے عالمی بوٹلنگ اور تقسیم کے آپریشن کی بیلجیم برانچ کے مطابق، مصنوعات میں کوک، فانٹا، سپرائٹ، ٹراپیکو اور منٹ میڈ برانڈز شامل ہیں۔ کلوریٹ اس وقت تیار کیا جا سکتا ہے جب کلورین پر مشتمل جراثیم کو پانی کے علاج اور فوڈ پروسیسنگ میں استعمال کیا جائے۔ ایک ترجمان نےخبر رساں ادارے  بی بی سی کو بتایا” ماہرین کی رائےسے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ صارفین کے لیے کوئی بھی خطرہ بہت کم ہے”۔ کوکا کولا نے کہا کہ اسے برطانیہ میں صارفین کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے، اور اس نے اس معاملے پر حکام کو آگاہ کر دیا ہے اور وہ ان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ فوڈ اسٹینڈرڈز ایجنسی کی این گریویٹ نے کہا کہ وہ تحقیقات کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا “اگر ہم کسی غیر محفوظ کھانے کی نشاندہی کرتے ہیں، تو ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کارروائی کریں گے کہ اسے ہٹا دیا جائے اور صارفین کو بتایا جائے۔ کلوریٹ کی اعلی سطح کی نمائش صحت کے مسائل کا سبب بن سکتی ہے بشمول تھائرائیڈ کے مسائل، خاص طور پر بچوں اور نوزائیدہ بچوں میں۔ این ایچ ایس اور پرائیویٹ نیوٹریشنسٹ کارون گریزیٹ نے بی بی سی کو بتایا: “ہمیں یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا  ہم سافٹ ڈرنکس میں ایسے کیمیکلز کو شامل  کرنا چاہتے ہیں جو آتش بازی اور جراثیم کش ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں، چاہے اس کی مقدار کم ہی کیوں نہ ہو”۔ کیمیکل کے بارے میں حالیہ تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے گریزیٹ نے مزید کہا کہ “کلوریٹ زیادہ مقدار میں لینے سے انسانوں پر متلی، الٹی، اسہال، اور آکسیجن جذب کرنے کی خون کی صلاحیت کو محدود کرناے جیسی بیماریوں کا خطرہ ہے۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے ایک نامعلوم کمپنی کے ترجمان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بیلجیم کے شہر گینٹ میں کمپنی کی پیداواری سہولت میں معمول کی جانچ کے دوران کلوریٹ کی اعلیٰ سطح دریافت ہوئی۔ اے ایف پی کے مطابق  زیادہ تر غیر فروخت شدہ مصنوعات شیلف سے واپس لے لی گئی تھیں، اور کمپنی باقی کو واپس لینے کے عمل میں تھی۔ کوکا کولا کے ترجمان نے کہا کہ وہ “اپنی مصنوعات کے معیار اور حفاظت کو اپنی اولین ترجیح سمجھتا ہے”۔

ایل پی جی سلنڈر کو خیرباد، کراچی کے نوجوان نے الیکٹرک رکشہ متعارف کرا دیا

سائنس ایکسپو کراچی میں یو آئی ٹی یونیورسٹی کراچی کے ایک طالب علم  محمد تیمور نےٹیکنالوجی کی دنیا میں اہم کام کر دیا۔ انہوں نے ایک ایسا رکشہ تیار کیا ہے جس میں ایل بی جی سلنڈر لگانے کی ضرورت نہیں رہی۔ ڈھائی لاکھ روپے میں ایل پی جی سے چلنے والا رکشہ الیکٹرک رکشے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ محمد تیمور کا کہنا تھا کہ” گورنمنٹ  آف پاکستان  کے ساتھ مل کر ہم نے ایل پی جی سے چلنے والا رکشے کو  الیکٹرک  رکشہ کے اندر تبدیل  کر دیا ہے۔ٹو اسٹروک رکشہ جسے آلودگی کی وجہ سے گورنمنٹ کی جانب سے 2012 میں بند کر دیا گیا تھا۔الیکٹرک رکشہ میں تبدیل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس پر لگی پابندی ہٹ سکے۔یہ بہت زیادہ آلودگی پیدا کر رہا تھا اس عنصر کو ہم نے ختم کیا ہے۔ اس کا انجن ہم نے ختم کر دیا ہے۔ فیول پرائس کم کرنے کے لیے  ایل پی جی یا سی این جی کٹ استعمال کی جاتی تھی جو محفوظ نہیں تھی۔ مسافروں اور اسکول کے بچوں کیلئے محفوظ نہیں تھا۔ ہم نے سی این جی اور ایل پی جی ہٹا کر بیٹری اور موٹر لگا دی  جو کہ مؤثر بھی ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ” نارمل رکشہ میں 12 روپے فی کلومیٹر دینے پڑتے ہیں۔ الیکٹرک رکشہ میں یہ قیمت 3 روپے فی کلومیٹر ہےاس کے اندر لگی بیٹری سے یہ ایک چارج میں 50کلومیٹر چلتا ہے۔یہ گھر کی ساکٹ سے بھی چارج ہو سکتا ہے۔ اس کے اندر پورٹیبل چارجر موجود ہے اسے آپ اپنے ساتھ لے جا بھی سکتے ہیں۔ ڈرائیور سمیت 4 بندے اس میں بٹھا کر چلا کر ٹیسٹ کر چکے ہیں۔

وائرس پھیلنے کا خطرہ، امریکا نے عالمی ادارہ صحت سے تعلقات ختم کردیے

بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے امریکی مراکز کے عملے کو عالمی ادارہ صحت کے ساتھ بات چیت بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ایک نئے میمو کے مطابق، عالمی صحت کی کوششوں کو ایک اہم رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ ہدایت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 جنوری کو ڈبلیو ایچ او سے امریکہ کو نکالنے کے ایگزیکٹو آرڈر کے مطابق کی گئی ہے، اتوار کو دیے گئے ایک میمو کے مطابق جو سی ڈی سی کے ڈپٹی ڈائریکٹر گلوبل ہیلتھ ڈاکٹر جان نکنگسانگ کی طرف سے ایجنسی کی سینئر قیادت کو بھیجی گئی تھی۔ میمو میں کہا گیا ہے کہ “فوری طور پر مؤثر طریقے سے تمام سی ڈی سی عملے کو ڈبلیو ایچ او کے ساتھ تکنیکی ورکنگ گروپس، کوآرڈینیٹنگ سینٹرز، ایڈوائزری بورڈز، کوآپریٹو معاہدوں یا دیگر ذرائع سے ذاتی طور پر یا آں لائن سرگرمیاں بند کرنی ہوں گی اور مزید رہنمائی کا انتظار کرنا چاہیے”۔ امریکہ ڈبلیو ایچ او کو سب سے زیاددہ فنڈز دینے  والے ممالک میں سے ایک ہے، اور تنظیم کے لیے امریکی حمایت واپس لینے سے پہلے وفاقی قانون کے لیے ایک سال کا نوٹس درکار ہے۔ ٹرمپ کے حکم نامے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کا قانونی نوٹس ان کی پہلی مدت کے دوران 2020 میں دیا گیا تھا، اس لیے فوری طور پر عمل ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر لارنس گوسٹن، جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے عالمی ماہر صحت جو قومی اور عالمی سطح پر ڈبلیو ایچ او کوآرڈینیٹنگ سینٹر چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ” یہ اقدام لاپرواہی ہے، بنیادی طور پر سی ڈی سی کو آگ بجھانے کے لیے ڈبلیو ایچ او کے ساتھ کام نہ کرنے کا حکم دینا امریکیوں کو بہت زیادہ کمزور کر دے گا”۔ انہوں نے کہا کہ “دنیا بھر میں جانوروں میں مہلک ماربرگ وائرس اور برڈ فلو کے پھیلنے کے ساتھ، صحت کے مسائل پر عالمی ہم آہنگی کی کمی خطرناک ہے”۔ گوسٹن نے کہا کہ “انہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ نے سی ڈی سی کے تمام عملے کو واپس بلا لیا ہے جو دوسرے ممالک میں ڈبلیو ایچ او کے دفاتر میں کام کر رہے  ہیں، یہ اقدام ٹرمپ کے 20 جنوری کے حکم نامے میں بتایا گیا ہے”۔ سی ڈی سی کے پاس 60 سے زیادہ ممالک میں عالمی دفاتر کے نیٹ ورک میں عملہ ہے۔ یہ دفاتر اس وقت ابتدائی امداد فراہم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں جب کوئی متعدی بیماری کی تشویش پھیلتی ہے۔ گوسٹن نے کہا کہ” اگر ٹرمپ ڈبلیو ایچ او کے ساتھ بہتر معاہدے پر بات چیت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس کے بارے میں بہتر طریقے موجود ہیں”۔ “صدر ٹرمپ سی ڈی سی کو کام روکنے کو کہہ رہے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ وائرس پھیلنے کے لیے ایک بھی لمحہ انتظار نہیں کرتے جب کہ وائٹ ہاؤس اس کے اگلے اقدام کا پتہ لگاتا ہے، “انہوں نے کہا۔ “اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ڈبلیو ایچ او کے ساتھ آپ کا مستقبل کا رشتہ کیا ہے، تو آپ اس وقت تک لڑائی میں رہیں گے جب تک کہ آپ کو اس کا پتہ نہ لگ جائے، اور پھر آپ اپنا اقدام کریں۔ آپ صرف اس وقت جنگ نہیں چھوڑیں گے جب آپ کچھ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہوں، کیونکہ دشمن – جو کہ وائرس ہے – اب بھی گردش کر رہا ہے اور تباہی پھیلا رہا ہے۔”

مسلسل گرتی شرح سود، معاشی ترقی یا کوئی خطرناک کھیل؟

پاکستان میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں متواتر اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو وہیں شرح سود مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے، گزشتہ روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں مزید ایک فیصد کمی کا اعلان کیا گیا، یہ نئے مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں ہونے والی چھٹی کمی تھی جس کے بعد اب شرح سود 12 فیصد پر آگئی ہے، جون 2024ء سے اب تک مجموعی طور پر شرح سود میں 10 فیصد کی کمی ہو چکی ہے۔ حکام کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ مہنگائی کے سدِباب کے لئے شرح سود میں احتیاط سے کمی کی گئی ہے اور اس کمی سے زرِ مبادلہ ذخائر میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہ سرخی میں افراط زر نیچے کی طرف بڑھ رہا ہے، عالمی اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور ممکنہ توانائی کے ٹیرف ایڈجسٹمنٹ جیسے خطرات بدستور موجود ہیں، تاہم بنیادی افراط زر بلند رہتا ہے جس کی وجہ سے مرکزی بینک محتاط رویہ اپناتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ استحکام سے پہلے مختصر مدت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ مالی سال 25 کے لیے افراط زر اوسطاً 5.5 سے 7.5 فیصد کے درمیان رہے گا، کمزور زرعی کارکردگی کی وجہ سے اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 0.9 فیصد رہی، جو توقعات سے قدرے کم ہے۔ بہتر مالیاتی نظم و ضبط کے باوجود، بنیادی توازن کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہونے کی امید ہے۔ جمیل احمد نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے نجی شعبے کے قرضوں میں اضافے کے ساتھ آٹوموبائلز، کھادوں اور پیٹرولیم مصنوعات کی زیادہ فروخت کا حوالہ دیتے ہوئے معاشی سرگرمیوں میں بتدریج بہتری کو بھی نوٹ کیا، بیرونی محاذ پر پاکستان نے دسمبر 2024 میں کرنٹ اکاؤنٹ میں 600 ملین ڈالر کا سرپلس پوسٹ کیا، جو کہ مضبوط ترسیلات زر اور برآمدی آمدنی، خاص طور پر ہائی ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سے حاصل ہونے والی آمدنی کے باعث ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے یہ بھی کہا کہ مالی سال 25 کی پہلی ششماہی کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس $1.2 بلین تک پہنچ گیا ہے، مرکزی بینک اس سال کے لیے جی ڈی پی کے 0.5 فیصد کے سرپلس اور خسارے کے درمیان کرنٹ اکاؤنٹ کے متوازن رہنے کی پیش گوئی کرتا ہے، تاہم چیلنجز باقی ہیں۔ اس سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس محصولات میں 26 فیصد اضافہ ہوا لیکن حکومت کے ہدف سے کم رہا، جس سے مالیاتی کارکردگی کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مہنگائی میں کمی کے اثرات عوام تک پہنچ رہے ہیں. پہلے جس شرح سے مہنگائی بڑھ رہی تھی. روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں بڑھ جاتی تھیں، جب کہ اب ایسا نہیں ہے، بالخصوص غذائی اشیا کی قیمتیں مستحکم ہیں. تاہم بعض اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کی قیمتیں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں، ہماری کوشش ہے کہ قیمتوں میں استحکام لایا جائے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے شرح سود میں مسلسل کمی کے فیصلوں کے پیچھے معاشی بحالی ہے یا پھر کوئی خطرناک کھیل ہے؟ آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ شرح سود بھی کم ہو رہی ہے لیکن مہنگائی میں کیسے اضافہ ہوتا جا رہا ہے؟ کیا شرح سود میں کمی ایک جھانسہ تو نہیں؟ معاشی رہنما اور تاجر اس سوال پر اپنا اپنا نظریہ رکھتے ہیں، کچھ نے مثبت تو کچھ نے منفی پہلو اجاگر کیے ہیں، کچھ نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں کی گئی کمی ایک خوش آئند فیصلہ ہے جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا، کچھ نے اسے معاشی ترقی کی جانب پہلا قدم قرار دیا ہے تو کچھ نے اسے فقط ایک چال قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا فائدہ حکومت اور تاجروں کو ہوگا مگر عام عوام کو نہیں ہو گا، مہنگائی میں کوئی کمی نہیں آنی، بجلی اور گیس کے بل کم نہیں ہونے، البتہ شرح سود کی کمی سے منافع ضرور کم ہوا ہے۔ حکومت اپنے فیصلوں سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے میں لگی ہے مگر شاید عوام کو درپیش مسائل دیکھنے سے قاصر ہے۔ جامعہ پنجاب کے شعبہ معاشیات کے سابق ڈین پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور چودھری نے ‘پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “اسٹیٹ بینک جب بھی شرح سود میں کمی کرتا ہے تو معاشیات کی زبان میں اس کا فائدہ یہ ہونا چاہیے کہ سرمایہ کاری بڑھ جائے، جب سرمایہ کاری بڑھتی ہے تو بے روزگاری اور غربت کم ہوتی ہے”۔ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ معاشیات کی پروفیسر ماہین امبر نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کی جانب سے کی گئی شرح سود میں کمی کے عوامی اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ” شرح سود میں مزید کمی سے قرضوں پر سود کی شرح کم ہوگی جس سے کاروباری افراد اور عام شہریوں کے لیے بینکوں سے قرض لینا آسان ہو گا۔ یہ کمی چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے فروغ میں کردار ادا کرے گی۔ یہ کمی روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوگی”۔ ڈاکٹر ممتاز انور نے شرح سود کی کمی کے مستقبل میں معاشی اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “ممکنہ طور پر تو یہ فیصلہ ٹھیک لگتا ہے، اس وقت معیشت کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت عوام کی زندگیوں میں آسانی لانے کے لیے سرمایہ کاری کا زیادہ ہونا بہت ضروری ہے تا کہ لوگوں کو روزگار ملے اور معاشی فروغ ملے”۔ اس حوالے سے پروفیسر ماہین امبر نے کہا کہ ” شرح سود میں کمی سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی کیونکہ سرمایہ کاروں کے لیے قرض لینا قدرے آسان ہو گا۔ تاہم اگر اس اقدام کے ساتھ مہنگائی پر قابو نہ پایا گیا تو افراط زر بڑھنے کا خدشہ ہو سکتا ہے جو معاشی استحکام کو متاثر کر سکتا ہے”۔ ڈاکٹر ممتاز نے شرح سود میں کمی کے فیصلے پر گفتگو کرتے