اسلام آباد کی فضا ان دنوں قدرے مختلف ہے، خاموش مگر گہری سیاسی چہل پہل، سفارتی سرگرمیوں کی غیر معمولی جنبش اور ایک اہم پیغام۔
8 اور 9 اپریل کو اسلام آباد کی سڑکوں پر ایک ایسا مہمان گھوم رہا تھا جو صرف رسمی دورے پر نہیں آیا تھا بلکہ وہ کچھ خاص لے کر آیا تھا جیسا کہ امریکی دلچسپی، سرمایہ کاری اور ایک عالمی دوڑ کا آغاز۔
یہ مہمان کوئی اور نہیں بلکہ امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے بیورو کے سینیئر عہدیدار ایرک میئر تھے۔
ایرک میئر کا کہنا تھا کہ “صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ دنیا بھر میں قیمتی معدنیات کے قابل اعتماد ذرائع تک رسائی اب امریکا کی ایک تزویراتی ترجیح ہے۔”
یہ محض ایک بیان نہیں بلکہ ایک عالمی اعلان تھا۔ ایک ایسی دوڑ جس میں امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان اس کا پارٹنر بنے، زمین کے نیچے دفن ان معدنیات کی بدولت جنہیں عالمی ٹیکنالوجی، دفاع اور صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ایرک میئر نے پاکستان منرلز انوسٹمنٹ فورم میں شرکت کی اور واضح پیغام دیا۔
انہوں نے کہا کہ “پاکستان کی معدنی دولت اگر ذمہ داری اور شفافیت کے ساتھ تیار کی جائے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی شراکت داروں کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔”
اس کے علاوہ میئر نے اور بھی ملاقاتیں کیں جن میں وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک سمیت کئی کلیدی شخصیات شامل ہیں۔
ان ملاقاتوں میں انہوں نے معاشی تعاون، سرمایہ کاری اور انسداد دہشت گردی کے تحت باہمی تعاون کی نئی تجاویز پیش کیں۔
ایرک میئر نے امریکی چیمبرز آف کامرس، سابق طالبعلموں اور خارجہ پالیسی کے اسٹیک ہولڈرز سے بھی ملاقات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا اب صرف “دوستی” کا خواہاں نہیں بلکہ “شراکت داری” کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے، ایک ایسی بنیاد جس کی جڑیں معیشت، وسائل اور عوامی تعلقات میں پیوست ہوں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دورے کے بعد کئی امریکی کمپنیاں پاکستان کے معدنی شعبے میں عملی سرمایہ کاری کی تیاری کر رہی ہیں۔ اس میں صرف لیتیھیم یا کوبالٹ جیسے قیمتی مادے شامل نہیں بلکہ مستقبل کی ٹیکنالوجیز کا خواب بھی جڑا ہے، وہ خواب جو پاکستان کی زمین میں چھپا ہوا ہے اور اب دنیا کی نظریں اس پر ہیں۔
ایک وقت تھا جب پاکستان عالمی افق پر صرف جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے اہم سمجھا جاتا تھا۔ اب منظر بدل رہا ہے۔ اب اہمیت اس دولت کی ہے جو زیرزمین ہے۔