مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں 22 اپریل کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری ’کشمیر ریزسٹنس‘ نامی گروپ نے قبول کرلی ہے، جو سوشل میڈیا پر ’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ (ٹی آر ایف) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ’ٹی آر ایف‘ 2019 میں منظرِ عام پر آیا اور انڈیا کا الزام ہے کہ یہ پاکستان میں موجود تنظیم ’لشکرِ طیبہ‘ کی ذیلی شاخ ہے۔
نئی دہلی میں قائم تھنک ٹینک ’ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل‘ کے مطابق پاکستان مسلسل اس الزام کی تردید کرتا آ رہا ہے کہ وہ کسی بھی دہشت گرد گروہ کی سرپرستی کرتا ہے۔
انڈین حکام کے مطابق ’ٹی آر ایف‘ سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر ’کشمیر ریزسٹنس‘ کا نام استعمال کرتا ہے اور اسی شناخت کے ساتھ اس نے پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
تھنک ٹینک ’ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل‘ کے سربراہ اجے ساہنی کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایف درحقیقت لشکرِ طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے، جو اس وقت سرگرم ہوا جب پاکستان ایف اے ٹی ایف کے دباؤ میں تھا اور کشمیر میں عسکریت پسندی میں مداخلت سے انکاری تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ “یہ گروہ بنیادی طور پر انہی پرانے نیٹ ورکس کا نیا چہرہ ہیں، جو محض نام تبدیل کر کے سامنے آئے ہیں۔”
اجے ساہنی کے مطابق ٹی آر ایف نے ماضی میں کسی بڑی کارروائی کی ذمہ داری نہیں لی، تاہم اس کے تمام آپریشنز کا تعلق لشکرِ طیبہ سے ہی جوڑا جاتا ہے، اور اس کی ہدایات بھی مبینہ طور پر وہیں سے آتی ہیں۔

انڈین وزارت داخلہ نے 2023 میں پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ٹی آر ایف سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کو نشانہ بنانے، سرحد پار سے اسلحہ و منشیات کی اسمگلنگ اور شدت پسندوں کی بھرتی میں ملوث ہے۔
رائٹرز کے مطابق بھارتی انٹیلی جنس حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ گروہ انڈین نواز کشمیریوں کو سوشل میڈیا پر دھمکیاں دیتا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: پہلگام فالس فلیگ، انڈین وزارتِ خارجہ نے تمام پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹوں کے اندر انڈیا چھوڑنے کا حکم دے دیا
خیال رہے کہ پہلگام حملے کو 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد بدترین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان نے ایک بار پھر ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے مؤقف دہرایا ہے کہ وہ کشمیریوں کی صرف اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی دہشت گرد تنظیم کی حمایت نہیں کرتا اور بھارت کا پروپیگنڈہ حقیقت کے برخلاف ہے۔
’یہ ایک سوچی سمجھی مہم ہے‘ کشمیری طلبا انڈیا کے خلاف بول پڑے
دوسری جانب انڈیا کی مختلف ریاستوں میں پڑھنے والے کشمیری طلبا کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد شدید دھمکیوں اور ہراسانی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، انہیں ہاسٹلز اور کرائے کے اپارٹمنٹس خالی کرنے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے کنوینر ناصر خوہامی نے تصدیق کی ہے کہ اترکھنڈ، اتر پردیش اور ہماچل پردیش میں کشمیری طلبا کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق ہماچل پردیش کی ایک یونیورسٹی میں طلبا کے ہاسٹل کے دروازے توڑ کر ان پر حملے کیے گئے اور انہیں ’دہشت گرد‘ جیسے الفاظ سے پکارا گیا۔
ناصر خوہامی نے بتایا ہے کہ یہ صرف سیکیورٹی کا معاملہ نہیں بلکہ کشمیری شناخت سے وابستہ طلبا کے خلاف ایک منظم نفرت انگیز مہم ہے، جس میں انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان ریاستی حکومتوں سے رابطے میں ہیں، جہاں کشمیری طلبا غیرمحفوظ محسوس کر رہے ہیں اور طلبا کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی انڈین وزیر داخلہ امیت شاہ سے اپیل کی ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے جو تاجروں اور طلبا کو کھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں۔

منگل کی روز مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشتگردی کا ہولناک واقعہ پیش آیا، جس میں تقریباً 27 سیاح ہلاک، جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔
انڈیا نے اس سارے واقعے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹہراتے ہوئے گزشتہ شب پاکستان کے خلاف کئی فیصلے کیے، انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ انڈیا کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ دہشتگردی کے اس واقعے میں پاکستان ملوث ہے۔
ترجمان انڈین وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ انڈیا نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا ہے۔ انڈیا اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن سے فوجی مشیروں کو واپس بلا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پانی بند کرنے کی انڈین کوشش کو جنگ سمجھا جائے گا، پاکستان کا اعلان
ترجمان کا کہنا تھا کہ انڈیا پاکستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات مزید کم کررہا ہے۔ انڈیا اسلام آباد سے اپنے تمام دفاعی اتاشی واپس بلائے گا۔ سندھ طاس معاہدہ معطل کررہے ہیں، اٹاری اور واہگہ بارڈر کو بھی بند کررہے ہیں۔ 2019 میں تعلقات کو ہائی کمشنر کی جگہ قونصلر تک کردیا تھا۔ سفارتی عملے کی تعداد کو 55 سے کم کر کے 30 تک لایا جائے گا۔
انڈین وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے پاکستان کی نیوی اور ایئرفورس کے اتاشیوں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ہائی کمیشن میں فوجی مشیروں کو ملک چھوڑنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت ہے۔
نائب وزیرِاعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا ہمیشہ بلیم گیم کرتا ہے۔ پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد ہیں تو انڈیا اور پاکستان سے شیئر کریں۔ دوسری جانب ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ سری نگر میں ایسے غیر ملکی آئے ہیں، جن کے پاس اسلحہ ہے۔ انڈین خفیہ ایجنسیوں نے ان لوگوں کی سری نگر میں رکھا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ کشمیر میں عسکریت پسند گروہ 1989 سے سرگرم ہیں، جب کہ 2019 میں بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اسے دو وفاقی علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا، جس کے بعد کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔