Follw Us on:

پہلگام واقعے پر انڈیا نے ماضی جیسے ثبوت دییے بغیر پاکستان پر الزام لگایا، امریکی اخبار

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
انڈین حکومت کی بریفنگز میں پاکستان کا نام لیے بغیر اس پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کے الزامات دہرائے جا رہے ہیں۔ (فوٹو: گوگل)

پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت کے واقعے کو ایک ہفتہ سے زائد گزرنے کے بعد شائع کی گئی رپورٹ میں امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ انڈیا نے ماضی کے واقعات کی طرح ثبوت فراہم نہیں کیے بلکہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔

عالمی خبررساں ادارے نیویارک ٹائمز نےسفارتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انڈین حکومت کی بریفنگز میں پاکستان کا نام لیے بغیر اس پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کے الزامات دہرائے جا رہے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی حالیہ تقریر میں کہا کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کر دیا جائے گا اور سخت سزا دی جائے گی۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ انڈین حکام کے مطابق دونوں ممالک کی افواج کے درمیان لائن آف کنٹرول پر پچھلے چند دنوں میں وقفے وقفے سے فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ ایک انڈین اہلکار نے بتایا کہ گزشتہ تین راتوں میں مسلسل فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جب کہ دوسرے اہلکار نے کہا کہ یہ تبادلہ دو بار ہو چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انڈین سیکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے اور سیکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جب کہ حملے کے ذمہ داروں کی تلاش جاری ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ انڈیا نے پاکستان کے خلاف اقتصادی دباؤ بڑھانے کے لیے دریاؤں کے پانی کے بہاؤ کو روکنے کا اعلان بھی کیا ہے، جس پر پاکستان کے زرعی نظام کا بڑا انحصار ہے، ساتھ ہی پاکستانی سفارتی مشن کے کچھ ارکان اور انڈیا میں موجود پاکستانی شہریوں کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے۔

انڈیا نے پاکستان کے خلاف اقتصادی دباؤ بڑھانے کے لیے دریاؤں کے پانی کے بہاؤ کو روکنے کا اعلان بھی کیا۔ (فوٹو: گوگل)

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکومت نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا حملے سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان نے جواب میں انڈیا کے ساتھ متعدد دو طرفہ معاہدے معطل کرنے کا اعلان کیا جن میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدہ بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پہلگام حملے کے بعد سےانڈیا میں مسلمانوں خاص طور پر کشمیری طلبہ کے خلاف نفرت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں کشمیری طلبہ کو ہراسانی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے باعث کئی طلبہ اپنے گھروں کو واپس جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ انڈیا کی جانب سے تاحال کسی مخصوص گروہ کو حملے کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا گیا اور نہ ہی پاکستان کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پیش کیے ہیں۔

انڈین حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں اور انہوں نے سفارتی بریفنگز میں ماضی میں پاکستان کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے حوالوں کے ساتھ ساتھ تکنیکی انٹیلیجنس، بشمول چہرے کی شناخت کے کچھ شواہد کا ذکر کیا۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق انڈیا یا تو مزید شواہد اکٹھے کرنے کے عمل میں مصروف ہے یا پھر موجودہ عالمی حالات میں اپنے اقدامات کو جواز دینے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہا۔

انڈیا یا تو مزید شواہد اکٹھے کرنے کے عمل میں مصروف ہے یا پھر موجودہ عالمی حالات میں اپنے اقدامات کو جواز دینے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہا۔ (فوٹو: پاکستان میٹرز)

دنیا کی بڑی طاقتیں جیسے امریکہ، ایران اور سعودی عرب نے دونوں ممالک پر تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ ایران نے ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے، جبکہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ اور دیگر بڑی طاقتیں دیگر عالمی بحرانوں میں الجھی ہوئی ہیں جس کے باعث انڈیا کو کسی بڑے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کی بھرپور حمایت کی ہے، تاہم جنوبی ایشیا ان کی خارجہ پالیسی میں زیادہ ترجیح نہیں رکھتا جو کہ 3 ماہ گزرنے کے باوجود انڈیا میں امریکی سفیر کی عدم تعیناتی سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔

نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار ڈینیئل مارکی نے بتایا کہ موجودہ امریکی رویہ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد کی صورتحال سے مماثل ہے، جب انڈین فضائی حملے کے بعد امریکہ نے انڈیا پر تحمل کا دباؤ بڑھایا تھا۔ اس وقت انڈین طیارہ مار گرائے جانے اور پائلٹ کی گرفتاری کے بعد پاکستان نے موثر جواب دیا تھا۔

تجزیہ کاروں کے بقول اب کی بار انڈیا “کچھ بڑی” کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پاکستانی حکومت نے بھی انڈیا کی کسی بھی کارروائی کا بھرپور جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اب کی بار انڈیا “کچھ بڑی” کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ (فوٹو: پاکستان میٹرز)

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ موجودہ حملے میں ذمہ داری کے حوالے سے صورتحال مبہم ہے۔ ایک غیر معروف گروپ ‘ریزیسٹنس فرنٹ’ نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا، جسےانڈین حکام لشکرِ طیبہ سے منسلک قرار دے رہے ہیں۔ سفارتی برادری میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا ماضی کے ریکارڈ کی بنیاد پر ایک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسائے کے ساتھ جنگ چھیڑ دینا دانشمندی ہو گی؟

انڈیا کے سابق قومی سلامتی مشیر شیو شنکر مینن نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ مودی حکومت کے پاس عسکری جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ 2016 اور 2019 میں بھی ایسے حملوں کے بعد فوجی کارروائی کی جا چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک ‘منظم دشمنی’ کی حالت میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور کشیدگی بڑے پیمانے پر پھیلنے کا امکان کم ہے۔

یاد رہے کہ دی ریزیسٹنس فرنٹ نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد اعلان کیا ہے کہ ان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک کیا گیا تھا اور یہ حملہ انہوں نے نہیں کیا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس