قومی اسمبلی کے اجلاس میں انڈیا کے خلاف ایک متفقہ قرارداد منظور کر لی گئی ہے، جس میں پہلگام واقعے کے بعد انڈیا کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیا گیا ہے۔
اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں حالیہ پاک-انڈیا کشیدگی اور انڈس واٹر ٹریٹی کے معطل ہونے پر تفصیلی بحث کی گئی۔
قومی اسمبلی کی ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ موجودہ اجلاس 16 مئی 2025 تک جاری رکھا جائے گا اور اس دوران انڈیا کی جانب سے بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ اجلاس میں انڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے کے خلاف مؤثر حکمت عملی پر غور کیاگیا۔
قرار داد میں کہا گیا کہ پاکستان انڈین الزامات کو مسترد کرتا ہے، انڈین جارحیت کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، پاکستان دہشتگردی کی ہر قسم کی مذمت کرتا ہے، کشمیری عوام کی غیر متزلزل حمایت جاری رہے گی اور پاکستان کی خودمختاری کا مکمل دفاع کیا جائے گا۔
مودی نرم زبان نہیں سمجھتا، اسے سخت پیغام دینا ہوگا، عمر ایوب
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے قرارداد کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ “مودی نرم زبان نہیں سمجھتا، اسے سخت پیغام دینا ہوگا۔اگر بھارت نے حملے کی کوشش کی تو اپوزیشن جان دینے کو بھی تیار ہے۔”
عمر ایوب نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے تحقیقات کی پیشکش کر کے کمزوری دکھائی، جب کہ پاکستان کسی دہشت گردی میں ملوث نہیں۔ آج کے حالات تقاضا کرتے ہیں کہ عمران خان کو رہا کیا جائے، کیونکہ مودی جیسے جارح حکمران کا مقابلہ عمران خان جیسا قائد ہی کر سکتا ہے۔
انہوں نے انڈس واٹر ٹریٹی کے خلاف انڈین اقدامات کو ‘جنگ کے مترادف’ قرار دیا اور کہا کہ آج انڈیا سندھ طاس معاہدے کو ہتھیار بنا رہا ہے۔
اپوزیشن لیڈر نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا موجودہ حکومت نے یوکرین کو ہتھیار فراہم کیے؟ اور مطالبہ کیا کہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔
مولانا فضل الرحمان کا غیر سنجیدہ ماحول پر ناراضی کا اظہار اور اجلاس سے واک آؤٹ
قومی اسمبلی کے اجلاس میں آج ایوان کی سنجیدگی پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی مولانا فضل الرحمان نے ایوان میں سینئر وزرا کی عدم موجودگی پر شدید اعتراض کرتے ہوئے غیر سنجیدہ ماحول پر ناراضی کا اظہار کیا اور اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔

اجلاس کے آغاز میں ایوان نے امیر جمیعت اہلحدیث سینیٹر پروفیسر ساجد میر سمیت دیگر وفات پانے والوں کے لیے دعائے مغفرت کی، جو مولانا فضل الرحمن نے کرائی۔
اس کے علاوہ حال ہی میں انتقال کر جانے والے مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ کے لیے ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔
مولانا فضل الرحمان نے اجلاس کے ماحول پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “میں اس غیر سنجیدہ ماحول کا حصہ نہیں بننا چاہتا، میں تو کچھ سنانے اور سننے آیا تھا۔”
اس پر ڈپٹی اسپیکر سید غلام مصطفی شاہ نے وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو مولانا فضل الرحمان کو منانے کی ذمہ داری دی۔ جے یو آئی کے دیگر اراکین بھی واک آؤٹ میں شریک ہو گئے۔
بڑی نشست پر چھوٹے شخص کو بٹھائیں گے تو یہی ہوگا، عبدالقادر پٹیل
دوسری جانب وفاقی وزیر عبدالقادر پٹیل نے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا نام لیے بغیر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں ایک تقریر کے چرچے ہوں گے لیکن ‘خدا کے واسطے کبھی تو عقل سے کام لیں۔’
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی بڑی نشست پر کسی چھوٹے شخص کو بٹھائیں گے تو یہی ہوگا۔ مودی کسی غلط فہمی میں نہ رہے، ہمارے پاس لاکھوں کی نہیں بلکہ 15 سے 20 کروڑ کی ایسی فوج ہے جو کسی کے پاس نہیں۔

قادر پٹیل نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہاں شور مچاتے ہیں لیکن ماضی میں آرٹیکل 370 کے خاتمے پر ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر احتجاج کرتے تھے۔
انہوں نے ابھی نندن کی رہائی پر بھی حکومت کے سابق فیصلوں کو ہدفِ تنقید بنایا۔ وزیر نے انڈین سیاست کو شاعر راحت اندوری کے اس شعر سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ “سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟ ۔۔۔ کچھ پتا تو کرو چناؤ ہے کیا؟”
ان کا کہنا تھا کہ “مودی یزید بننے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ہم پرامن ہیں، جنگ نہیں چاہتے، مگر دشمن کی غلط فہمی کا جواب ضرور دیں گے۔”
خیال رہے کہ اجلاس کے دوران تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا کہ انڈیا کے خلاف مشترکہ محاذ اپنایا جائے اور جھوٹے بیانیے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔
کمیٹی اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سید غلام مصطفیٰ شاہ ، وفاقی وزراء رانا تنویر حسین، اعظم نذیر تارڈ، طارق فضل چوہدری، خالد حسین مگسی اور ممبران قومی اسمبلی، محترمہ شہلا رضا، اعجاز حسین جاکھرانی، ملک عامر ڈوگر، عجاز الحق، نور عالم خان، طلال چوہدری، سید امین الحق، محترمہ شازیہ عطاء مری، ملک عامر ڈوگر، محترمہ زرتاج گل اور پولین بلوچ، گل اصغر خان، جام اسلم نے شرکت کی۔