اسرائیلی وزیرِاعظم کے حالیہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اسرائیلی افواج نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یورپی سفارتکاروں کے وفد پر مبینہ طور پر فائرنگ کی۔ فلسطینی وزارت خارجہ نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے جان بوجھ کر جنین کے قریب موجود سفارتی وفد کو نشانہ بنایا۔
واقعے کے بعد خطے میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے، جبکہ یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا جا رہا ہے۔ برطانوی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ آزادانہ تجارتی معاہدے پر بات چیت روکنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ یورپی یونین بھی اس معاہدے پر نظرثانی کر رہی ہے۔
لازمی پڑھیں: انڈین کرکٹ بورڈ کی ایشیا کپ سے دستبرداری سے متعلق خبروں کی تردید
عالمی دباؤ میں اضافے کے بعد، اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ بدھ کے روز 100 امدادی ٹرکوں کو غزہ جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ ان ٹرکوں میں آٹا، بچوں کی خوراک، اور طبی ساز و سامان شامل تھا۔

تاہم، اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ابھی تک ان امدادی اشیاء کی تقسیم ان افراد تک نہیں ہو سکی جو اس وقت شدید بحران کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ نے غزہ کی صورتحال کو انسانی تباہی سے تعبیر کرتے ہوئے فوری اور مؤثر امداد کی اپیل کی ہے۔
ماہرین کے مطابق اسرائیل کی جانب سے امدادی ٹرکوں کو داخلے کی اجازت عالمی برادری کے سخت دباؤ کا نتیجہ ہے، مگر زمینی حقائق میں بہتری ابھی تک نظر نہیں آ رہی۔ فلسطینی علاقوں میں جاری فوجی کارروائیوں، امداد کی بندش، اور سفارتی شخصیات کو نشانہ بنائے جانے جیسے اقدامات خطے میں امن کی کوششوں کے لیے شدید خطرہ بن چکے ہیں۔
فلسطینی وزارت خارجہ نے عالمی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ بنائیں اور غزہ میں امداد کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔