انڈین حکام نے مقبوضہ کشمیر میں سلال اور باگلیہ پن بجلی منصوبوں میں ریزروائر کی صفائی کا عمل شروع کر دیا ہے جو 1960 کے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد کا پہلا عملی قدم ہے۔
یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا ضامن رہا ہے لیکن حالیہ کشیدگی کے باعث انڈیا نے اس معاہدے کو معطل کر دیا ہے۔
انڈیا نے گزشتہ ماہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اب آزادانہ طور پر آبی منصوبے شروع کر سکتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت انڈیا کو پاکستان کے حصے کے دریاؤں پر صرف رن آف دی ریور منصوبے بنانے کی اجازت تھی جو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ لیکن حالیہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا اب اس معاہدے کی پابندی نہیں کر رہا۔
سلال اور باگلیہ منصوبوں میں ریزروائر کی صفائی کا عمل 1 مئی سے شروع ہوا اور تین دن تک جاری رہا۔ اس عمل میں ریزروائر سے مٹی اور ریت نکالی جاتی ہے تاکہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔ تاہم، اس عمل کے دوران پانی کی سطح میں اتار چڑھاؤ آتا ہے جس سے دریا کے کنارے آباد علاقوں میں سیلاب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
پاکستان نے انڈیا کے اس اقدام کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ انڈیا کی طرف سے پانی کی فراہمی روکنا یا موڑنا جنگی عمل سمجھا جائے گا۔
لازمی پڑھیں: پاکستان، انڈیا کشیدگی: ’معمولی جھڑپ بھی جنگ میں بدل سکتی ہے‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی فوج کسی بھی انڈین جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
عالمی برادری نے انڈیا اور پاکستان دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ امریکا اور چین نے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
تاہم، انڈیا نے سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے رٹلے اور کشن گنگا منصوبوں پر اعتراضات غیر ضروری ہیں۔
انڈیا کا یہ اقدام نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کے تنازعات کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ صورتحال تشویش کا باعث ہے کیونکہ اس کے زرعی اور توانائی کے وسائل اس معاہدے پر منحصر ہیں۔
اگر انڈیا نے اپنے اقدامات جاری رکھے تو اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی آئے گی بلکہ پورے خطے میں آبی وسائل کے انتظام پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ صورتحال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پانی کے وسائل کا انتظام صرف تکنیکی یا اقتصادی مسئلہ نہیں بلکہ ایک حساس اور پیچیدہ سیاسی معاملہ بھی ہے۔ لہٰذا، دونوں ممالک کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا تاکہ خطے میں امن اور استحکام قائم رہ سکے۔