Follw Us on:

پاکستان انڈیا کشیدگی: دونوں ممالک کی معیشیت پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

زین اختر
زین اختر
Pak vs india
سرحد پار تناؤ کا ہر واقعہ اسٹاک مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ (فوٹو: گوگل)

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کی تاریخ جتنی پرانی ہے، اس کے اثرات اتنے ہی گہرے اور وسیع ہیں۔ ان دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگی ماحول یا فوجی جھڑپیں نہ صرف سیاسی تناؤ کو ہوا دیتی ہیں بلکہ اس کا شدید اثر دونوں ممالک کی معیشت، تجارت اور کاروباری حلقوں پر بھی پڑتا ہے۔

سرحد پار تناؤ کا ہر واقعہ اسٹاک مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیتا ہے، درآمد و برآمد کا عمل سست ہو جاتا ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور سب سے زیادہ نقصان وہ طبقہ اٹھاتا ہے، جو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار سے وابستہ ہوتا ہے۔

2023 میں جب لائن آف کنٹرول پر گولہ باری میں اضافہ ہوا اور سفارتی بیانات مزید تلخ ہو گئے تو اس کے بعد دونوں ملکوں کی معیشتوں نے دباؤ محسوس کیا۔ انڈیا میں روپیہ کمزور ہوا، جب کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت ایک بار پھر بڑھنے لگی۔

حالیہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی اور حملوں نے بھی دونوں ممالک کو اسی طرح متاثر کیا ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان رسمی تجارت 2019 سے بند ہے، تاہم غیر رسمی تجارت اب بھی مختلف راستوں سے جاری ہے۔

Pak vs india ii
پاکستان اور انڈیا کے درمیان رسمی تجارت 2019 سے بند ہے۔ (فوٹو: گوگل)

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں ابوزر شاد نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاک انڈیا رسمی تجارت اگست 2019 سے بند ہے۔ کچھ ادویات کا خام مال انسانی بنیادوں پر پاکستان درآمد کیا جاتا ہے، جن کی مالیت انتہائی کم ہے، لیکن غیر رسمی تجارت کا حجم تقریباً دو ارب ڈالرز سے زیادہ ہے، جو رسمی تجارت کی نسبت تقریباً پانچ گنا زیادہ ہے۔ یہ تجارت متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کے ذریعے ہوتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا پاکستان کو تقریباً پونے دو ارب ڈالرز کی غیر رسمی برآمدات کرتا ہے، جن میں بڑا حصہ ادویات کا ہے، جب کہ پاکستان سے انڈیا کھجوریں اور نمک وغیرہ جاتا ہے، جن کی مالیت محدود ہے۔

میاں ابوزر شاد کے مطابق اگر غیر رسمی تجارت بند ہو جائے تو انڈیا کو زیادہ نقصان ہو گا، کیونکہ پاکستان ادویات کے متبادل ذرائع بآسانی تلاش کر سکتا ہے۔

لازمی پڑھیں: انڈین کرکٹ بورڈ کی ایشیا کپ سے دستبرداری سے متعلق خبروں کی تردید

اس کے علاوہ فضائی حدود کی اہمیت بھی دونوں ملکوں کے معاشی تعلقات میں غیر معمولی ہے۔

ایئر لائن اکنامکس کے پروفیسر اور سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایئر ٹرانسپورٹ محمد اسفر ملک  کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق سوائے جنگی حالات کے کسی ملک کے لیے ایئر اسپیس بند کرنا جرم ہے۔ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد پاکستان نے متعدد بار فضائی حدود بند کی ہیں۔

انہوں نے یاد دلایا کہ 2019 میں پاکستان نے انڈیا کے لیے پانچ ماہ تک فضائی حدود بند رکھی تھیں، جس سے انڈیا کو تقریباً آٹھ کروڑ ڈالرز اور پاکستان کو دس کروڑ ڈالرز کا نقصان ہوا تھا، کیونکہ پاکستان نے تمام بین الاقوامی ایئر لائنز پر بھی انڈیا کے لیے پابندی عائد کی تھی۔ اس مرتبہ صرف انڈین ایئر لائنز پر پابندی لگائی گئی ہے، جس سے پاکستان کو کم نقصان کا اندیشہ ہے۔

Pak vs india iii
اگر غیر رسمی تجارت بند ہو جائے تو انڈیا کو زیادہ نقصان ہو گا۔ (فوٹو: گوگل)

‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے لاہور میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ راحیل محمود بتاتے ہیں کہ 2019 کے بعد سے جب بھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے، ان کے یورپی کلائنٹس پریشان ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’جب بارڈر پر فائرنگ یا جنگ کی خبریں آتی ہیں، تو غیر ملکی خریدار آرڈر روک دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اس خطے میں عدم استحکام ہے اور وہ متبادل سپلائرز کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔‘‘

راحیل محمود کا کہنا ہے کہ 2023 کی کشیدہ صورتحال کے بعد ان کے دو بڑے آرڈرز کینسل ہو چکے ہیں کیونکہ خریداروں کو خدشہ تھا کہ شپنگ میں تاخیر ہو سکتی ہے یا حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی کاروباری خاتون عائشہ صدیقہ، جو کہ مصالحہ جات اور خشک میوہ جات کی ایکسپورٹ کرتی ہیں نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ 2019 میں جب دونوں ممالک کے درمیان تجارت بند ہوئی تھی تو ان کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ ’’ہم انڈیا سے کچھ خام مال خریدا کرتے تھے جو اب افغانستان یا دیگر مہنگے ذرائع سے منگوانا پڑتا ہے۔ اسی طرح ہماری مصنوعات کا بھی انڈیا میں ایک خاص مارکیٹ تھی، جو بند ہو گئی۔ سیاستدان تو بیانات دے کر آگے نکل جاتے ہیں، نقصان ہم تاجروں کا ہوتا ہے۔”

مزید پڑھیں: آپریشن بنیان مرصوص میں شاہین میزائل داغنے کی خبریں بےبنیاد اور من گھڑت ہیں، دفترِ خارجہ

اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جنگی ماحول یا کشیدگی براہ راست کاروبار پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان 2022 میں باہمی تجارت صرف 300 ملین ڈالر تک محدود رہی، جو کہ ماضی کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ حالانکہ دونوں ممالک کی مارکیٹس ایک دوسرے کے لیے بہترین مواقع رکھتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق اگر سیاسی حالات سازگار ہوں تو دوطرفہ تجارت 5 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھ سکتی ہے۔

سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل کاروبار بھی اس کشیدگی سے محفوظ نہیں۔ لاہور میں فری لانسنگ اور ای کامرس سے وابستہ نوجوان حمزہ جاوید کا کہنا ہے کہ جب بھی جنگ یا کشیدگی کی بات ہوتی ہے تو ان کے آن لائن سٹور پر انڈین صارفین کا رسپانس کم ہو جاتا ہے۔ ’’پچھلے سال جب ایل او سی پر کشیدگی بڑھی تو مجھے اپنی انڈیا میں چل رہی ایڈز مہم بند کرنا پڑی، کیونکہ وہاں سے نیگیٹو فیڈبیک آنے لگا۔ سیاست کے جھگڑے کاروبار کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔‘‘

حمزہ سمجھتے ہیں کہ اگر نوجوانوں کو باہمی ڈیجیٹل تعاون کے مواقع ملیں تو یہ دشمنی آہستہ آہستہ کم ہو سکتی ہے۔

Pak vs india iv
اگر سیاسی حالات سازگار ہوں تو دوطرفہ تجارت 5 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھ سکتی ہے۔ (فوٹو: گوگل)

دونوں ملکوں کے عوامی اور کاروباری حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ کشیدگی کسی کے لیے فائدہ مند نہیں۔ جنگ صرف گولہ بارود کی تباہی نہیں لاتی بلکہ روزگار، ترقی اور خطے کے استحکام کو بھی داؤ پر لگا دیتی ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کی موجودہ شرح اور کرنسی کی گرتی ہوئی قدر ایسے حالات میں مزید بگڑ سکتی ہے اگر کشیدگی طول پکڑ لے۔ اسی طرح انڈیا میں بھی کسانوں اور صنعتکاروں نے ماضی میں مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی اختلافات کو تجارتی تعلقات پر اثرانداز نہ ہونے دیا جائے۔

دوسری جانب  دونوں ممالک کی حکومتیں اپنی سیاسی مفادات کے تحت سخت گیر مؤقف اختیار کر لیتی ہیں۔ تجارت اور معیشت اکثر قومی بیانیے میں پس منظر میں چلی جاتی ہے، جب کہ فرنٹ پر صرف فوجی طاقت یا حب الوطنی کا شور رہ جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دانشمندی اور پالیسی سازی کی ضرورت ہے تاکہ کاروبار، روزگار اور ترقی جیسے اہم شعبے سیاسی محاذ آرائی سے محفوظ رہ سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: مودی کی پالیسیوں پر تنقید، انڈیا نے خاتون پروفیسر کی شہریت منسوخ کر دی

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی ایک مستقل مسئلہ بنتی جا رہی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں اور کاروباری طبقے کو ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب دنیا باہمی تجارت، ڈیجیٹل معاہدوں اور علاقائی تعاون کی طرف بڑھ رہی ہے، جنوبی ایشیا بدقسمتی سے نفرت اور تنازعات میں الجھا ہوا ہے۔ جب تک دونوں ممالک یہ تسلیم نہیں کرتے کہ پائیدار ترقی صرف امن سے جڑی ہے، تب تک نہ صرف کاروبار بلکہ عوام کا مستقبل بھی داؤ پر لگا رہے گا۔

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس