مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اب ایک کھلی جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہے، جس کے اثرات خطے کی جغرافیائی سیاست اور طاقت کے توازن پر دور رس ثابت ہو رہے ہیں۔
عالمی قوتیں اس تنازع میں واضح طور پر تقسیم ہو چکی ہیں اور پورا خطہ ایک نازک مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ ایسے میں پاکستان جیسے ملک کے لیے غیر جانب دار رہنا ایک پیچیدہ سفارتی چیلنج بن سکتا ہے، خاص طور پر جب عوامی سطح پر مذہبی جذبات اس نوعیت کے تنازعات پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ کیا پاکستان بھی اس عالمی کشمکش کی لپیٹ میں آ سکتا ہے؟ یہی سوال اب پالیسی سازوں اور تجزیہ کاروں کے درمیان زیرِ بحث ہے۔
پاکستان، جو ایران کا ہمسایہ ہے، اس صورتِ حال میں خاص طور پر ایک نازک مقام پر کھڑا ہے۔ مغربی سرحد پہلے ہی افغانستان کی صورتحال، مہاجرین کے مسئلے اور بلوچستان میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کے باعث غیر مستحکم ہے۔
اس حوالے سے نوجوان صحافی محمد جہانزیب ریاض نے پاکستان میٹرز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بطور ایران کا براہِ راست ہمسایہ، پاکستان کسی بھی بڑی کشیدگی یا جنگ کا براہ راست متاثر ہو سکتا ہے۔ سب سے پہلا اثر سرحدی سلامتی اور شیعہ-سنی کشیدگی کی صورت میں داخلی سطح پر سامنے آ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ایران میں بدامنی سے مہاجرین کی آمد، اسمگلنگ میں اضافہ اور بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو نئی طاقت ملنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔

یہ تنازع اب دو ریاستوں ایران اور اسرائیل کے مابین رہنے کے بجائے ایک وسیع تر پراکسی جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ایران کو چین اور روس کی حمایت حاصل ہے، جب کہ اسرائیل کو امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا بھرپور عسکری و انٹیلیجنس تعاون میسر ہے۔
جہانزیب ریاض نے کہا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست جنگ عالمی سیاست میں ایک انتہائی خطرناک موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ عالمی طاقتوں کے مفادات، توانائی کی ترسیل اور جغرافیائی اتحادوں کو بھی متاثر کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر جنگ شدت اختیار کرتی ہے تو امریکا اور یورپی اتحادی کھل کر اسرائیل کے ساتھ، جب کہ روس اور چین کسی حد تک ایران کی پشت پناہی کر سکتے ہیں، جس سے نئے عالمی بلاکس کی تشکیل تیز ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور عالمی معیشت میں عدم استحکام کے آثار بھی واضح ہیں۔
اسلامی ممالک ہونے کے ناطے پاکستان عرب ممالک اور ایران کے ساتھ جذباتی تعلقات کی بنیاد پر وابستگی رکھتا ہے، اس وجہ سے پاکستان کی عالمی کشمکش سے متاثر ہو سکتا ہے۔
نوجوان صحافی کا کہنا ہے کہ پاکستان کو عرب ممالک اور ایران دونوں کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھنے کے لیے غیرجانبداری اور اسٹریٹجک خاموشی کا راستہ اپنانا ہوگا،اسلامی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے امن کی اپیل اور ثالثی کی پیشکش، پاکستان کو ایک سنجیدہ اور متوازن قوت کے طور پر پیش کر سکتی ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ اقتصادی سفارت کاری کو بنیاد بنا کر عرب ریاستوں اور ایران دونوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے تاکہ پاکستان کسی فرقہ وارانہ ایجنڈے یا پراکسی سیاست کا حصہ نہیں بنے گا۔

واضح رہے کہ اگر ایران میں کشیدگی بڑھتی ہے تو اس کا براہِ راست اثر پاکستان کی مغربی سرحد پر پڑ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کو نہ صرف داخلی سلامتی کے چیلنجز کا سامنا ہوگا بلکہ اسے اپنی سفارتی حکمتِ عملی پر بھی ازسرِنو غور کرنا پڑے گا۔
سینئر تجزیہ کار میاں محمد معیز نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران-اسرائیل کشیدگی کا براہِ راست اثر پاکستان کے سی پیک منصوبے اور ایران انڈیا کے چابہار منصوبے پر پڑ سکتا ہے،اگر ایران عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے تو چابہار بندرگاہ کی عملی افادیت کم ہو سکتی ہے، جس سے سی پیک کو علاقائی ترجیح مل سکتی ہے۔
ایران-اسرائیل جنگ کے باعث عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے، جو پاکستان جیسے تیل درآمد کرنے والے ملک کے لیے ایک شدید مالی دباؤ کا باعث بنے گا۔ پاکستان پہلے ہی مہنگائی، زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی اور قرضوں کے بوجھ جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ اگر خطے میں کشیدگی بڑھتی ہے تو چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو سکتی ہے، خاص طور پر چابہار بندرگاہ جیسے علاقہ جات میں اگر بدامنی پیدا ہو۔
پاکستانی عوام کی ایران سے جذباتی وابستگی بطور ایک مسلم ریاست کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ماضی میں بھی فلسطین کے حوالے سے پاکستانی عوام نے بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر ایران اس جنگ کو ’اسلامی مزاحمت‘ کے طور پر پیش کرتا ہے تو پاکستانی عوام کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ مزید گہری ہو سکتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں حکومت پر عوامی دباؤ بڑھ سکتا ہے کہ وہ اپنی غیر جانب داری ختم کرے اور کسی ایک فریق کی حمایت کا اعلان کرے، جو کہ ریاستی پالیسی کے لیے ایک مشکل چیلنج ہوگا۔
پاکستان مذہبی ملک ہونے کی وجہ سے ایران کے ساتھ مذہبی جذبات رکھتا ہے، جس میں عوامی پریشر ہونے کی وجہ پاکستان کو اپنی پالیسی مرتب کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔

میاں محمد معیز نے کہا کہ اگر ہم اسرائیل کے معاملے پر پاکستان کی پالیسی کو دیکھے تو اس میں عوامی جذبات کو کافی حد تک ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے اور اس میں بانی پاکستان کا اسرائیل پر مؤقف کو بہت اہمیت حاصل ہے اور اکثریت پاپولیشن کے جذبات اور رائے کے خلاف ریاست کوئی پالیسی مرتب نہیں کر سکتی
ایران،اسرائیل جنگ ایک نیا عالمی بحران جنم دے چکی ہے، جس میں عالمی طاقتوں کی صف بندی، خطے کی جغرافیائی سیاست، اور عوامی جذبات تینوں عناصر مل کر صورت حال کو شدید پیچیدگی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہوگا کہ وہ اس تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی کشمکش میں اپنا قومی مفاد کیسے محفوظ رکھتا ہے۔ جذبات اور حقیقت کے درمیان توازن، خارجہ پالیسی کی دانشمندی اور داخلی استحکام ہی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔