Follw Us on:

پاکستان میں نئے صوبوں کی بحث: ڈیرہ اسماعیل خان خیبر پختونخوا کا حصہ کیوں ہے؟

احسان خان
احسان خان
Whatsapp image 2025 08 28 at 23.49.17
پاکستان میں نئے صوبوں کی بحث: ڈیرہ اسماعیل خان خیبر پختونخوا کا حصہ کیوں ہے؟( فائل فوٹو)

پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کی بحث ہر دور حکومت میں زور پکڑتی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتیں انتخابات کے دوران عوام کو زیادہ وسائل، بہتر نمائندگی اور انتظامی خودمختاری کے وعدے کرتے ہوئے نئے صوبوں کے بل اسمبلیوں میں پیش کرتی رہی ہیں۔ مگر ان وعدوں کو کبھی عملی شکل نہیں دی گئی۔

یہ بحث صرف انتظامی سہولت تک محدود نہیں رہی بلکہ لسانی، ثقافتی اور سیاسی بنیادوں پر بھی صوبوں کی ازسرنو تقسیم کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے، انہی میں سے ایک اہم اور متنازعہ علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان بھی ہے،جو لسانی، ثقافتی اور تاریخی طور پر جنوبی پنجاب یا سرائیکی وسیب کا حصہ سمجھا جاتا ہے، لیکن انتظامی طور پر خیبر پختونخوا میں شامل ہے۔

یہ سوال مسلسل زیربحث ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان خیبر پختونخوا کا حصہ کیوں ہے؟ کیا یہ فیصلہ تاریخی طور پر عوامی خواہشات کے مطابق کیا گیا تھا، یا یہ صرف ایک برطانوی دور کا انتظامی اقدام تھا؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ اگر نئے صوبے واقعی پاکستان کے مفاد میں ہیں، تو آج تک ان پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو سکا؟

 1901 میں برطانوی دور میں  ڈی آئی خان کو پنجاب سے نکال کر نئے قائم ہونے والے صوبہ سرحد (جو آج خیبر پختونخوا کہلاتا ہے) میں شامل کیا گیا تھا، اس تبدیلی کے نفاذ سے مقامی انتظام اور ترقیاتی حکمت عملی پر اثرات پڑے، تاہم کسی عوامی مطالبے یا کلچر ترجیح کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں ہوا تھا اور اس میں اکثریت سرائیکی اور پشتونوں کی ہے۔

جنوبی پنجاب سے ڈاکٹر بلال عتیق نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈی آئی خان  کو صرف سرائیکی وسیب سے نسبت کی بنیاد پر جنوبی پنجاب کا حصہ بنانا غلط ہوگا کیوں کہ ڈی آئی خان وہ ضلع ہے جہاں سرائیکی اور پشتون اکثریت میں ہیں ۔قیام پاکستان سے لے کر اب تک  یہ ضلع صوبہ خیبرپختونخوا میں ہی شامل ہے،اگر ایک قوم اکثریت میں ہوتی تو فیصلہ کرنا آسان تھا مگر ایسا نہیں ہے،اس لیے ڈی آئی خان کی تاریخ حیثیت برقرار رکھی جانی چاہیے اور لوگوں کو مزید تقسیم ہونے سے روکا جانا چاہیے۔

Featured image (1)

نئے صوبوں کے قیام سے سیاسی توازن تبدیل ہو سکتا ہےطاقتور صوبے جیسے پنجاب کو کمزور کیا جا سکتا ہے اور نئے صوبوں میں سیاسی نمائندگی ممکن ہوتی ہے۔ تاہم، اس سے سیاسی قطب بندی، وسائل کی تقسیم پر تنازعات اور علاقائی قطبی رجحانات بھی جنم لے سکتے ہیں۔

بلال عتیق نے کہا کہ ڈی آئی خان تاریخی طور پر خیبر پختونخوا کا حصہ ہے اور اس کا سیاسی اور انتظامی ڈھانچا پشاور کے پاس رہا ہے،یہاں پشتون اور دیگر قبائل کی بڑی تعداد ہے جو خود کو خیبرپختونخوا سے جوڑتی  ہے ۔انتظامی ڈھانچے کے علاوہ تعلیمی اداروں اور ترقیاتی منصوبوں کی جڑیں بھی زیادہ تر پشاور کے ساتھ ہیں اس لیے الگ کرنے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ اگر ثقافتی  تاریخ کو دیکھا جائے تو اس لحاظ سے بھی یہ خطہ کسی ایک قوم یا زبان کی حمایت نہیں کرتا اگرچہ یہاں سرائیکی ثقافت کی جڑیں مضبوط ہیں ساتھ ہی پشتون ثقافت بھی ہے اس لیے اس لحاظ سے بھی اسے کسی طور پر تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔

نئے صوبوں کی ترکیبیں تو دی جاتی ہیں مگر اس منصوبے کے لیے بہت سی مشکلات درپیش ہیں جس کی وجہ سے صوبوں کی تشکیل کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری لینا  آسان نہیں ہے۔

اس حوالے سے ڈاکٹر محمد شعیب نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئینی لحاظ سے نئے صوبوں کے قیام میں متعدد مشکلات حائل ہیں۔ کسی بھی نئے صوبے کے قیام کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظوری حاصل کرنا ضروری ہے، اس کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بھی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس کی توثیق لازم ہے، جو ایک طویل اور پیچیدہ آئینی عمل ہے، جس کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد اختیارات صوبوں کو منتقل کیے گئے، ایسے میں اگر نئے صوبے قائم ہوتے ہیں تو اختیارات کے نفاذ اور امورِ حکومت چلانے میں انتظامیہ کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Featured image (2)

محمد شعیب کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بے پناہ اختیارات تو حاصل ہو گئے، لیکن ان اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اس وقت کا سیاسی نظام مقامی قیادت کو بااختیار بنانے کی بجائے ضلعی انتظامیہ کے ذریعے معاملات چلانے کو ترجیح دیتا ہے، جو درحقیقت نچلی سطح پر اقتدار کی منتقلی کے عمل کو روکنے کے مترادف ہے۔ اس لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے بلدیاتی نظام کو مضبوط اور فعال بنانا ہوگا۔

اگر نئے صوبے تشکیل دے دیے جاتے ہیں تو کیا پاکستان کی موجودہ معیشت ان نئے صوبوں کے قیام کے مالی بوجھ کو برداشت کر سکے گی۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب: سیلاب سے 6 لاکھ افراد متاثر، 15 اموات، اس وقت کیا صورتحال ہے؟

اس حوالے سے محمد شعیب نے کہا کہ  موجودہ معاشی حالات میں پاکستان نئے صوبوں کے قیام کے مالی بوجھ کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ جب تک ملک معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوتا اور اقتدار حقیقی معنوں میں نچلی سطح تک منتقل نہیں کیا جاتا، اُس وقت تک اس نوعیت کے سیاسی مباحث اور تناؤ کا سامنا رہے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں کئی ایسے ممالک موجود ہیں جو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے چھوٹے ہونے کے باوجود کئی انتظامی یونٹس میں منقسم ہیں اور ان کے وفاقی ڈھانچے کو اس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ تاہم، پاکستان کے موجودہ سیاسی و معاشی حالات ایسے کسی انتظامی فیصلے کو فی الحال برداشت نہیں کر سکتے۔

مزید پڑھیں:پاکستان میں 14 نئے صوبے بنانے کی تجویز، کیا ملک میں صدارتی نظام نافذ ہوگا؟

پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل بار بار زیرِ بحث رہنے والی لیکن عملی طور پر عملی جامہ نہ پہنانے والی کوشش رہی ہے۔ آئینی، سیاسی اور معاشی رکاوٹیں اس عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہیں۔ ڈی آئی خان کا خیبر پختونخوا کا حصہ ہونا، برطانوی دور کے انتظامی فیصلوں کا نتیجہ ہے، نہ کہ کسی عوامی یا سیاسی مطالبے کا۔

احسان خان

احسان خان

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس