Follw Us on:

کینیڈا میں جسٹن ٹروڈو کے جانشین مارک کارنی کون ہیں؟

حسیب احمد
حسیب احمد
کینیڈا میں جسٹن ٹروڈو کے جانشین مارک کارنی کون ہیں؟

مارک کارنی، دنیا کے دو بڑے مرکزی بینکوں کے سابق گورنر اب کینیڈا کے وزیرِاعظم بن چکے ہیں۔

ایک ایسا نام جو کبھی مالیاتی پالیسی کے بند دروازوں کے پیچھے کام کرتا تھا اب ملک کے سب سے بڑے سیاسی عہدے پر فائز ہے۔

مارک کارنی کا سفر ایک غیرمعمولی داستان ہے ایک معاشی ماہر سے وزیرِاعظم تک، جس میں مالی بحرانوں سے لڑنے کی صلاحیت، بین الاقوامی تجربات اور اب ملکی قیادت شامل ہے۔

مارک کارنی کی کہانی کا آغاز کینیڈا کے شمالی علاقے فورٹ اسمتھ، نارتھ ویسٹ ٹیریٹریز سے ہوتا ہے۔ ایک اسکول پرنسپل کے بیٹے اور آئرش نژاد والدین کے پوتے، کارنی کا تعلق ایک عام مگر باہمت گھرانے سے تھا۔

وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کرنے گئے جہاں وہ ہاکی کے کھلاڑی بھی رہے۔ بعد ازاں آکسفورڈ یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی حاصل کی جہاں ان کا تحقیقی موضوع تھا کہ ’’کیا ملکی سطح پر مقابلہ بازی معیشت کو عالمی سطح پر زیادہ مؤثر بنا سکتی ہے؟‘‘

مزید پڑھیں: کشمیری ہماری جان کے دشمن بن چکے ہیں، اس کی وجہ ہماری اپنی حرکتیں ہیں، انڈین آرمی

2007 میں جب دنیا مالیاتی بحران کے دہانے پر تھی، کارنی کو بینک آف کینیڈا کا گورنر بنایا گیا۔ ان کا فیصلہ، شرحِ سود میں واضح کمی اور ایک سال تک شرح کو مستحکم رکھنے کا اعلان کاروباری طبقے کے لیے امید کی کرن بن گیا۔

اسی بصیرت نے انہیں بعد میں بینک آف انگلینڈ کا پہلا غیر برطانوی گورنر بنایا جہاں انہوں نے جدید اصلاحات متعارف کرائیں اور بحران کے وقت قوم سے براہ راست بات کرکے مالیاتی نظام کو سنبھالا دیا۔

ان کی سب سے مشہور پالیسی “فارورڈ گائیڈنس” تھی، ایک ایسا اعلان کہ جب تک بے روزگاری سات فیصد سے کم نہ ہو، سود کی شرح نہیں بدلی جائے گی۔

اس حکمتِ عملی پر برطانوی سیاست میں انہیں “غیر قابل اعتبار محبوب” تک کہا گیا، مگر وقت نے ثابت کیا کہ یہ محبوب مالیاتی بحرانوں سے نمٹنے کا ماہر تھا۔

کارنی کئی برس تک سیاست سے دور رہے حتیٰ کہ ایک بار مذاق میں کہا کہ “کیوں نہ میں سرکس کا جوکر بن جاؤں؟” لیکن پھر 2025 کی شروعات میں جب جسٹن ٹروڈو نے استعفیٰ دیا تو لبرل پارٹی کو ایک نیا چہرہ درکار تھا، ایک ایسا چہرہ جو ٹرمپ کی تجارتی یلغار کا سامنا کر سکے، جو معاشی بحالی کا راستہ جانتا ہو اور جس پر عوام کا بھروسہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: پہلگام واقعہ کے بعد انڈین فوج میں ’بغاوت‘۔ تلخ کلامی پرفائرنگ، 5 سکھ سپاہی ہلاک

پارٹی کے اندرونی انتخابات میں کارنی نے نہ صرف سابق وزیر خزانہ کرسٹیا فری لینڈ کو ہرایا بلکہ عام انتخابات میں بھی زبردست فتح حاصل کی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت نے کینیڈا کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں، نئی تجارتی جنگ، ٹیرف، اور یہاں تک کہ کینیڈا کو امریکا کا “51 ویں ریاست” بنانے کی باتیں۔

لیکن کارنی ان باتوں پر خاموش نہیں رہے، ایک موقع پر انہوں نے ٹرمپ کے بیانات کو “ہیری پوٹر کے ولن وولڈیمورٹ” سے تشبیہ دی اور کہا کہ “یہ تبصرے اس قدر مضحکہ خیز اور توہین آمیز ہیں کہ میں انہیں دہرانا بھی نہیں چاہتا۔”

کارنی نے اقتدار سنبھالتے ہی کاربن ٹیکس کا خاتمہ کیا جو کہ متنازع مگر مقبول اقدام ہے۔ یہ وہ ٹیکس تھا جو ٹروڈو حکومت کی ماحولیاتی پالیسی کا مرکز تھا مگر عام شہریوں کے لیے مہنگائی کا باعث بن چکا تھا۔

کارنی نے اعلان کیا کہ “یہ فیصلہ عام کینیڈین کے لیے ریلیف لائے گا۔”

لازمی پڑھیں: اقوام متحدہ اجلاس: جعفر ایکسپریس حملے میں انڈین دہشت گردی کے ثبوت موجود ہیں، پاکستان

ماحولیاتی پالیسی پر ان کا مؤقف متوازن رہا ہے۔ وہ ماحولیاتی تحفظ کے بھی حامی ہیں اور توانائی منصوبوں میں تیزی کے بھی۔

کارنی نے مہاجرین کی آمد پر حدود مقرر کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ صحت، رہائش اور دیگر عوامی سہولیات پر بوجھ نہ پڑے۔ ان کا ماننا ہے کہ ہنرمند افراد کی ضرورت ہے مگر منصوبہ بندی کے ساتھ۔

اگرچہ ان کی جیت تاریخی ہے مگر مخالفت بھی کم نہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک مالیاتی ادارے کے ہیڈ آفس کو ٹورنٹو سے نیویارک منتقل کرنے میں کردار ادا کیا۔

کارنی ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے تمام مالیاتی اثاثے ایک “بلائنڈ ٹرسٹ” میں ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مارک کارنی ایک ٹیکنوکریٹ سے ایک مکمل سیاسی رہنما میں بدل سکیں گے؟ اور کیا وہ ٹرمپ جیسے سخت حریف سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اندرونی مسائل مہنگائی، بے روزگاری، اور صحت کے نظام کو سنبھال پائیں گے؟ مزید پڑھیں: فلسطین، مقبوضہ کشمیرکے حوالے سے او آئی سی کا مؤقف غیر مؤثر کیوں ہے؟

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس