Follw Us on:

شام پر امریکی پابندیوں کا خاتمہ: فلسطینی مزاحمت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا یا مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندی کا پیش خیمہ؟

مادھو لعل
مادھو لعل
America
امریکا نے شام پر عائد اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ (فوٹو: گوگل)

ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط سیاسی و عسکری محاذ آرائی کے بعد امریکا نے شام پر عائد اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے، جس سے عوامی حلقوں میں بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے جیساکہ کیا ان امریکی پابندیوں کا خاتمہ فلسطینی مزاھمت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہےیا پھر مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

ماہرین اس فیصلے کو علامتی اور وقتی تناظر میں دیکھ رہے ہیں، جب کہ عالمی تجزیہ کار اسے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن کی نئی ترتیب کا نقطہ آغاز قرار دے رہے ہیں، جس سے اس سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا شام کی بحالی صرف ایک ریاست کا داخلی معاملہ ہے، یا یہ پورے خطے میں نئی صف بندی کی بنیاد رکھ رہا ہے؟

‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈوکیٹ تقویم چانڈیو نے کہا ہے کہ شام کی بحالی صرف ایک ریاست کا داخلی معاملہ نہیں، بلکہ یہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن، علاقائی اتحادوں اور جیوپولیٹیکل صف بندیوں میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

2011 میں عرب بہار کے بعد شام میں بشارالاسد کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہوئے، جو دیکھتے ہی دیکھتے خانہ جنگی میں بدل گئے۔ امریکا اور یورپی ممالک نے بشارالاسد پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور جمہوری اقدار کو کچلنے کے الزامات لگائے اور اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔

مگر گزشتہ دس سالوں میں روس، ایران اور حزب اللہ جیسے اتحادیوں کی مدد سے بشارالاسد نے نہ صرف اقتدار برقرار رکھا بلکہ ملک کے بیشتر حصے پر دوبارہ کنٹرول بھی حاصل کر لیا۔ دوسری طرف امریکا، خلیجی ریاستیں اور اسرائیل شام میں اسد مخالف عناصر اور کرد ملیشیاؤں کی حمایت کرتے رہے۔

America ii
گزشتہ دس سالوں میں روس، ایران اور حزب اللہ جیسے اتحادیوں کی مدد سے بشارالاسد نے نہ صرف اقتدار برقرار رکھا۔ (فوٹو: گوگل)

امریکی فیصلے کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی خاموشی قابلِ غور ہے۔ دونوں ممالک پہلے ہی شامی حکومت کے ساتھ غیررسمی روابط بحال کر چکے ہیں۔ یہ اقدام خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف مشترکہ بلاک کی تشکیل کا عندیہ دے سکتا ہے۔

ایڈووکیٹ تقویم چانڈیو نے کہا ہے کہ امریکی پابندیوں کے خاتمے سے ایران،شام اورحزب اللہ اتحاد کو نہ صرف نئی توانائی مل سکتی ہے بلکہ یہ اتحاد خطے میں اپنی عسکری، اقتصادی اور سفارتی سرگرمیوں کو زیادہ آزادی اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: انڈیا: ‘بھتہ نہ دینے پر’ انتہا پسند ہندوؤں نے چار مسلمانوں کو ادھ موا کرکے ٹرک جلا ڈالا

اسرائیل کے لیے یہ پیش رفت باعثِ تشویش ہے۔ ایران کی شامی سرزمین پر موجودگی اور حزب اللہ کی مضبوطی کے تناظر میں اسرائیلی دفاعی حکام اس تبدیلی کو خطے میں اپنی سٹریٹیجک برتری کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ تل ابیب کو اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ امریکی پابندیوں کے خاتمے کے بعد شام میں موجود فلسطینی مزاحمتی گروہوں، خاص طور پر حماس اور اسلامی جہاد کو نئی طاقت، اسلحہ اور تربیت مل سکتی ہے۔

ترکی بھی ایک اہم فریق ہے، جو شام کے شمالی حصے میں کرد ملیشیاؤں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہا ہے۔ انقرہ کے لیے پابندیوں کا خاتمہ بظاہر مثبت نظر آتا ہے، لیکن اگر ایران اور شام کا اتحاد مضبوط ہوا تو ترکی کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

Israeli embassy
شام کے شمالی حصے میں کرد ملیشیاؤں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہا ہے۔ ٖ(فوٹو: رائٹرز)

شام، ایران اور حزب اللہ کے مابین تعلقات کی تجدید کا براہِ راست فائدہ فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر غزہ میں موجود حماس اور اسلامی جہاد کو عسکری و مالی امداد کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ اس امداد سے نہ صرف ان گروہوں کی عسکری صلاحیت میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کی نئی لہر کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد کی رسائی بھی آسان ہو سکتی ہے۔ شام کے راستے غذائی، طبی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے، جس سے غزہ اور مغربی کنارے کے حالات میں کچھ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف کی ترک صدرایردووان سے ملاقات: ’ترکیہ کی حمایت سے پاکستان کو فتح ملی

پاکستان کے لیے یہ پیش رفت سفارتی سطح پر ایک پیچیدہ صورتحال پیدا کر سکتی ہے۔ ایک طرف ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں، تو دوسری طرف سعودی عرب اور ترکی جیسے اہم شراکت داروں کے مفادات بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان تمام تعلقات کا توازن برقرار رکھنا ایک کٹھن سفارتی آزمائش بن سکتا ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے چارٹر، انسانی حقوق کے اصولوں اور امتِ مسلمہ کی یکجہتی کی بنیاد پر شام کے مسئلے پر محتاط موقف اپنایا ہے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان پر دباؤ ہو سکتا ہے کہ وہ واضح طور پر کسی ایک بلاک کا حصہ بنے خاص طور پر جب چین، روس اور ایران ایک نیا خطے میں اتحاد تشکیل دے رہے ہیں۔

Islamabad gaza march
پاکستان کے لیے یہ فیصلہ نہایت حساس اور پیچیدہ ہے۔ (فوٹو: پاکستان میٹرز)

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے طالب علم واصف علی واصف نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ فیصلہ نہایت حساس اور پیچیدہ ہے کہ پاکستان کس کے ساتھ کھڑا ہوگا کیونکہ  ایک طرف اصولی مؤقف ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر، انسانی حقوق اور امت مسلمہ کی یکجہتی پر مبنی ہے اور دوسری جانب اسٹریٹیجک مفادات ہیں جو امریکہ، چین، ایران، سعودی عرب اور ترکی جیسے ممالک سے تعلقات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان ممکنہ طور پر “توازن کی پالیسی” اپنائے گا، یعنی وہ کسی ایک بلاک کا کھلا حمایتی بننے کے بجائے، اصولی موقف کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے سفارتی و اقتصادی مفادات کا بھی تحفظ کرے گا۔

ایسے میں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو کیسے برقرار رکھے گا؟ کیا پاکستان کو چین،ایران اور روس بلاک کی طرف جھکاؤ دکھانا چاہیے یا امریکی کیمپ میں رہتے ہوئے غیرجانبدار کردار ادا کرنا چاہیے؟

لازمی پڑھیں: آپریشن سندور نے دنیا کو پیغام دیا کہ انڈیا دہشت گردی کے خلاف تیار ہے، نریندرا مودی

شام میں بحالی اور تعمیر نو کے امکانات پاکستانی کمپنیوں کے لیے ایک بڑا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ انفراسٹرکچر، طبی سہولیات، توانائی، تعلیم اور دفاعی صنعت کے شعبے میں پاکستان اپنی سروسز اور مصنوعات پیش کر سکتا ہے۔

واصف علی واصف نے کہا ہے کہ اسرائیل کی سیکیورٹی پالیسی ہمیشہ سے پیشگی اقدامات اور ممکنہ خطرات کے سدباب پر مبنی رہی ہے۔ شام پر سے امریکی پابندیوں کے خاتمے کے بعد اگر ایران اور حزب اللہ کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا ہے یا فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو نئی حمایت میسر آتی ہے، تو یہ اسرائیل کے لیے ایک اسٹریٹیجک چیلنج بن سکتا ہے۔ ایسے میں امکان ہے کہ اسرائیل ردِعمل کے طور پر غزہ پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع کرے تاکہ مزاحمتی گروہوں کی ممکنہ قوت کو ابتدا ہی میں محدود کیا جا سکے۔ اس منظرنامے میں خطے میں عسکری کشیدگی میں اضافے کا خدشہ مزید بڑھ جائے گا۔

America iii
شام پر سے امریکی پابندیوں کے خاتمے کے بعد اگر ایران اور حزب اللہ کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا ہے۔ (فوٹو: گوگل)

اس کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ میں سرمایہ کاری کے نئے رجحانات، توانائی پالیسی، گیس پائپ لائنز اور تجارتی راہداریوں کے نئے منصوبے جنم لے سکتے ہیں۔ خاص طور پر ایران، عراق اور شام راہداری اگر فعال ہوتی ہے تو پاکستان کے لیے وسطی ایشیا اور یورپ تک تجارتی رسائی کا ایک نیا دروازہ کھل سکتا ہے۔

ایڈووکیٹ تقویم چانڈیو نے کہا ہے کہ یہ امریکی قدم بظاہر مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ایک علامتی تبدیلی معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کے اثرات کہیں زیادہ گہرے ہو سکتے ہیں۔ شام پر سے امریکی پابندیوں کا خاتمہ روس، ایران اور چین جیسے طاقتوں کے اثر و رسوخ کو بڑھا سکتا ہے، جو پہلے ہی خطے میں امریکہ کے مقابل تزویراتی پوزیشن حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ فیصلہ ایک نئی سرد جنگ کی بنیاد بن سکتا ہے، ایک ایسی سرد جنگ جو معاشی اثر و رسوخ، توانائی کے ذخائر اور جغرافیائی اتحادیوں کی بنیاد پر لڑی جائے گی۔

مزید پڑھیں: صحافی لطیف بلوچ کو کیوں قتل کیا گیا؟

شام پر سے امریکی پابندیوں کا خاتمہ صرف ایک ملک کی اقتصادی آزادی نہیں، بلکہ یہ مشرقِ وسطیٰ میں بدلتے ہوئے طاقت کے توازن کا اشارہ بھی ہے۔ اس کے دور رس اثرات فلسطین، ایران، اسرائیل اور پاکستان سمیت کئی ممالک کی پالیسیوں پر مرتب ہوں گے۔ آنے والے دنوں میں یہ واضح ہوگا کہ دنیا کس حد تک اس نئی صف بندی کو قبول کرتی ہے یا مزاحمت کرتی ہے۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس