انتظار کی گھڑیاں ختم، لاہور کی سڑکوں پر ایکو فرینڈلی بسیں دوڑنے کے لیے تیار

ایکو فرینڈلی بسیں

میٹرو، سپیڈو اور اورنج لائن ٹرین کے بعد عوامی سہولت کے لیے 15 فروری سے لاہور کی سڑکوں پر ایکو فرینڈلی  الیکٹرک بسیں رواں دواں ہوں گی۔ پنجاب ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق جدید ترین ایکو فرینڈلی الیکٹرک بسیں چین سے لاہور پہنچ گئی ہیں۔ پہلے فیز میں 27 میں سے 21 بسیں منگل کوPTC  کے ڈپو پر پہنچائی گئیں جبکہ مزید 6 بدھ کو پہنچ جائیں گی۔ وزیر ٹرانسپورٹ پنجاب بلال اکبر خان کے مطابق  15جنوری کو بسیں چین سے کراچی پورٹ پر پہنچائی گئی تھی۔ بسوں کی کلیئرنس اور لاہور روانگی تک کے اقدامات  مکمل کرنے خود کراچی گئے تھے۔ پنجاب کو میٹرو بسوں اور اوررنج لائن ٹرین کے بعد ایکو فرینڈلی ٹرانسپورٹ کا تحفہ ملنے جا رہا ہے۔ وزیر ٹرنسپورٹ نے کہا کہ 15فروری تک لاہور کی سڑکوں پر الیکٹرک بسیں رواں دواں ہوں گی۔ 27 الیکٹرک بسیں بارش کی پہلی بوند ہیں اس کے بعد 500 سے زائد مزید الیکٹرک بسیں بھی چلائی جائیں گی۔ الیکٹرک بسوں سے عوام کو سستی اور معیاری سفری سہولت میسر آئے گی۔ انھوں نے کہا کہ ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے تمام متلعقہ افسران کو ضروری اقدامات مکمل کرنے کی ہدایت وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز خود دے رہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب ایک ایک کر کے وعدے پورے کر رہی ہیں۔ وزیر ٹرانسپورٹ نے مزید کہا کہ مخالفین صرف باتیں کرتے رہے گئے مگر وزیر اعلیٰ پنجاب نے عملی اقدامات سے صوبے کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ ایکوفرینڈلی ٹرانسپورٹ منصوبے کا سارا کریڈٹ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اورنج ٹرین،  سپیڈواور میٹرو بس جیسے منصوبوں سے شہریوں کے سفری اخراجات بہت کم ہو گیے ہیں۔ ان پبلک بسوں کے پورے لاہور میں سٹیشن ہونے کی وجہ سے کم کرائے والی بسیں شہریوں کے لیےخوش آئند بات ہے۔ اورنج لائن ٹرین کا لاہور میں 25 فروری 2020 کو پاکستان تحرک انصاف کے دور میں افتتاح کیا گیا تھا۔ اورنج لائن ٹرین کے ٹریک کی لمبائی 27.1 کلو میٹر اور 26 اسٹیشنز ہیں، جس کا پہلا اسٹیشن قلعہ گجراں اور آخری اسٹیشن علی ٹاؤن اسٹیشن  ہے۔ پنجاب میٹرو بس کے اتھارٹھی کے مطابق میٹرو بس کا لاہور میں افتتاح 11 مئی 2013ء کو مسلم لیگ ن کے دور میں کیا گیا تھا۔ میٹرو بس کے 27 اسٹیشنز ہیں جبکہ اس کا ٹریک 27 کلو میٹرز کے فاصلے پر مبنی ہے۔ لاہور میں 115 میٹرو بسیں مسافروں کے لیے رواں دواں ہیں۔ میٹرو بس شاہدرہ سے گجومتہ تک سفری سہولیات فراہم کرتی ہے۔ میٹرو اور اورنج لائن ٹرین کی وجہ سے شہریوں کے لیے سفر بہت آسان ہو گیا ہے اور اب مزید ایکو فرینڈلی بسوں سے شہریوں کہ سہولیات میں اضافہ ہو جائے گا جس کا بقائدہ طور پر لاہور میں 15 فروری کو افتتاح کیا جائے گا، یہ منصوبہ مہنگائی کے اس دور میں کم خرچ ہونے کے ساتھ ساتھ ماحول دوست بھی ثابت ہو گا۔ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور ٹریفک کے شور سے نمٹمنے کے لیے ایکو فرینڈلی الیکٹرک پبلک بسیں اہم کردار ادا کریں گی۔

توہین عدالت کیس ، سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کو برطرف کر دیا گیا ۔

Supreme court of pakistan

توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کے جاری کردہ آرڈر کے باوجود سماعت کے لیے بینچز  مقرر نہ کرنے  پر سپریم کورٹ میں تعینات ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق  جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے حکم پر  بینچز  مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کے کیس پر  سماعت کی ، جس میں سپریم کورٹ کے ایڈشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر پیش ہوئے۔ نجی ٹی وی ایکسپریس کے مطابق  ایڈیشنل رجسٹرار ایڈمن پرویز اقبال کے دستخط سے نذر عباس او ایس ڈی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اور یہ نوٹیفکیشن رجسٹرار سپریم کورٹ کی منظوری کے بعد جاری کیا گیا۔نوٹیفکیشن میں ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کو تاحکم ثانی فوری رجسٹرار آفس کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ کسٹم ایکٹ سے متعلق کیس کو آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جانا تھا، رجسٹرار کی غلطی سے سپریم کورٹ کے معمول کے بینچ کے سامنے لگا دیا گیا، اس کے نتیجے میں عدالت کا وقت ضائع ہوا۔ سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیے  عدالت کے حکم کے باوجود بینچ مقرر کیوں نہیں کیا گیا، جس کے جواب میں رجسٹرار نذر عباس نے کہا کہ یہ کیس آئینی بینچ کا تھا اور غلطی سے ریگولر بینچ میں لگ گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ  نے استفسار کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی کے اجلاس کے لیے آپ نے خود درخواست دی یا کمیٹی نے خود اجلاس بلایا ؟ جس کے جواب میں  رجسٹرار نے کہا کہ ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا۔ عدالت میں نوٹ دکھائے گئے تو جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ  نوٹ میں غلطی کا ادراک تو نہیں کیا گیا، اس میں لکھا ہے کہ  16 جنوری کو ایک آرڈر جاری ہوا ہے، اس آرڈر کی بنیاد پر نیا بینچ بنانے کا کہا  جا رہا ہے، جب کہ آرڈر میں بتایا گیا تھا کہ کیس کی سماعت کس بینچ پر ہونی ہے۔ دوسری طرف رجسٹرار نے مؤقف اپنا یا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس آئینی بینچ کمیٹی کو بھجوایااورکمیٹی نے آئینی ترمیم سے متعلقہ مقدمات 27 جنوری کو مقرر کیے۔ ترمیم کے بعد جائزہ لیاگیا کہ کون سے مقدمات بینچ میں مقرر ہو سکتے ہیں اورکونسے نہیں۔ جس پرجسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو مقدمہ واپس لینے کا اختیار کہاں سے آیا؟ جواب میں رجسٹرار نے کہا کہ کمیٹی کیسز مقرر کر سکتی ہے تو واپس لینے کا بھی اختیار رکھتی ہے۔جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا کام کیس پہلی بار مقرر ہونے سے پہلے تک کا ہوتا ہے اور جب کیس چل پڑے تواس کے بعد کمیٹی کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا بینچ اختیار کا کیس جوڈیشل عدالت فل کورٹ کو بھیج سکتی ہے؟  جس پربیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ آرٹیکل 191 اے فل کورٹ کے اختیارات محدود نہیں کرتا۔ یہ عدالت 26ویں ترمیم کے تحت بینچز اختیارات کا کیس فل کورٹ کو بھیج سکتی ہے۔ ماضی میں جب بھی کسی بینچ نے آرڈر سے بڑے بینچ کے لیے فائل بھیجی اس پر عمل ہوا۔ دوسری جانب رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہا کہ مقدمات کی شیڈولنگ میں غلطی ہوئی تھی جس کی جانچ کی جا رہی ہے۔ مقدمات کو معمول کے بینچ سے ہٹانے کا فیصلہ ایڈیشنل رجسٹرار کی بدنیتی پر مبنی نہیں تھا،  بلکہ یہ معمول کی کمیٹی کی ہدایات کی تعمیل میں لیا گیا تھا۔ عدالت نےاٹارنی جنرل کو فوری طور پر طلب کر لیا جس میں عدالت نے اٹارنی جنرل کو معاونت کی ہدایت کر دی اور کہا کہ اٹارنی جنرل سمیت دیگر وکلا کو کل سنیں گے۔ عدالت نے کیس کی سماعت  22 جنوری تک ملتوی کردی ہے۔ یاد رہے کہ بینچ اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جسٹس منصور، جسٹس عائشہ اور جسٹس عقیل عباسی نے چیف جسٹس آفریدی کو خط لکھا تھا اور معاملے کو توہین عدالت  قرار دیا تھا۔

بٹ کوائن کی بڑھتی مقبولیت، کیا یہ دیگر کرنسیوں کے لیے خطرہ ہے؟

Bitcoin

کرپٹو کرنسی اور بٹ کوائن دنیا کی پہلی ڈی سینٹرلائزڈ کرنسی ہے جو عالمی مالیاتی نظام کو ایک نیا رخ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بٹ کوائن کی تخلیق کے بعد ہزاروں نئی کرنسیز متعارف ہو چکی ہیں، جنہوں نے مارکیٹ میں طوفان  برپا کر دیا ہے۔ یہ کرنسی نہ صرف سرمایہ کاری کے ایک نئے راستے کے طور پر سامنے آئی ہے، بلکہ اس کی مقبولیت میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کرپٹو کرنسی کی ایک اہم خصوصیت بلاک چین ٹیکنالوجی ہے، جو ہر ٹرانزیکشن کو محفوظ اور قابلِ تصدیق بناتی ہے۔ اگرچہ کرپٹو کرنسی میں پیسہ کمانا ممکن ہے، مگر اس کے ساتھ ہی اس کے نقصانات اور خطرات بھی ہیں۔ یہ ڈی سینٹرلائزڈ کرنسی نہ کسی حکومت کے زیرِ نگرانی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مرکزی ادارہ ہے، جس کی وجہ سے دھوکہ دہی کے واقعات اور مارکیٹ کی غیر مستحکم حالت بڑھ سکتی ہے۔ اس کرنسی کی سپلائی کا عمل بھی مختلف ہوتا ہے، بعض کرنسیز کی محدود سپلائی ہے جیسے بٹ کوائن، جبکہ دیگر کی سپلائی لامحدود ہے۔ اس کے باوجود، کرپٹو کرنسی نے عالمی سطح پر سرحدوں کے بغیر لین دین کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ مثال کے طور پر ایل سلواڈور وہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے بٹ کوائن کو قانونی حیثیت دی، جو کہ کرپٹو کرنسی کے مستقبل کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ لیکن دنیا بھر کے معاشی ماہرین اس نئی کرنسی کے اثرات سے خوف زدہ ہیں کہ کہیں یہ روایتی کرنسیوں اور بینکنگ نظام کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ کرپٹو کرنسی سے وابستہ افراد بھی اسے ایک محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر دیکھتے ہیں، حالانکہ اس کی اتار چڑھاؤ والی قیمتوں کی وجہ سے اس میں سرمایہ کاری کرنا مکمل طور پر محفوظ نہیں ہے۔ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ کرپٹو کرنسی سونے جیسے قیمتی اثاثوں کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اس کے باوجود، غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے لیے یہ ایک موزوں پلیٹ فارم بن چکا ہے، کیونکہ یہ کرنسی کسی ملک یا حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ کرپٹو کرنسی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے ایک نئی مالیاتی دنیا کو جنم دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس سے جڑے قانونی، مالیاتی، اور سیکیورٹی مسائل کو حل کرنا بھی ضروری ہو گا تاکہ اس کا پائیدار استعمال ممکن ہو سکے۔

اگزیکٹو آرڈر پر دستخط، ٹرمپ نے آتےہی سرکاری ملازمین کو پریشان کر دیا

trump posing with executive order signing

نومنتحب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےپیر کے روز عہدہ اٹھانے کے بعد حکومت سنبھالتے ہی 78 ایگزیکٹو آرڈرز پہ دستخط کر دیے ہیں۔ ان آرڈرز میں سے امریکی صدر نے وفاقی ملازمین کے لیے ریمورٹ ورک ختم کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر بھی دستخط کیے ہیں۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق دوسری دفعہ منتخب ہونے والے امریکی صدر نے گزشتہ روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے مطابق ریمورٹ ورک کرنے والے وفاقی ملازمین کومتعلقہ اسٹیشن پر کام کرنے کا پابند بنایا جائے۔ یہ ایسا اقدام ہے جس کے بارے میں توقع کی جا رہی ہے کہ اس ایگزیکٹیو آرڈر کے خلاف ملازمین کی یونین کی طرف سے رد عمل اور قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔    ٹرمپ کی جانب سے اس ایگزیکٹیو آرڈر پر عمل درآمد کرانے کے لیے وفاقی ایجنسیوں کے سربراہوں کو ہدایت  کی گئی ہے کہ وہ ریمورٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے جلد سے جلد اقدامات کریں۔ برطانوی خبر رساں ادارے ‘بی بی سی’ کے مطابق امریکی آئین کا آرٹیکل 2 صدر کو ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ ایگزیکٹو آرڈر یا صدارتی حکم نامہ امریکی صدر کی طرف سے وفاقی حکومت کو ایک تحریری حکم ہوتا ہے جس کے لیے پارٹی کی اجازت نہیں چاہیے ہوتی۔ صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ  ریمورٹ ورک کرنے والے وفاقی ملازمین کو متعلقہ اسٹیشن پر کام کرنے کا صدارتی حکم نامہ جاری کر سکتا ہے۔ خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق تقریباً 26% وفاقی ملازمین یونینائزڈ ہیں اور یہ ملازمین  بہت سے معاہدوں کے تحت آتے ہیں۔ ان معاہدوں کے مطابق ملازمین کو ریمورٹ ورک یا ہائبرڈ انتظامات کی اجازت دی جاتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو ان کی میعاد ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا یا معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ وفاقی ایجنسیوں اور یونینز کے درمیان سودے بازی کے معاہدوں کو صرف عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ کچھ معاملات میں وفاقی ایجنسیوں کو معذور ملازمین کو ریمورٹ ورک  کرنے کی اجازت دینے کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ وفاقی قانون آجروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دائمی طبی حالات والے کارکنوں کو مناسب رہائش فراہم کریں جب تک کہ وہ اپنے کام کے فرائض انجام دے سکیں۔ ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈرز پر ستخط کرنے کے دوران ریمورٹ ورکرز کی تعداد 6 فیصد بتائی تھی لیکن خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق ریمورٹ ورکرز کی تعدادتقریبا” 46 فیصد یا 1.1 ملین افراد پر مشتمل ہے۔ امریکی صدر کے اس ایگزیکٹیو حکم سے کئی وفاقی ملازمین ریمورٹ ورک کو ختم کرنے کی وجہ سے استعفیٰ بھی دے سکتے ہیں۔ برطابوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ  ان ایگزیکٹو آرڈرز کی  قیادت ایلون مسک کریں گے۔ ادھر ایلون مسک ریمورٹ ورک کے حوالے سے  ٹرمپ کے اس حکم نامے کی تعریف کرتے ہوئے  ایکس ( سابقہ ٹویٹر) پر اپنے جاری کردہ پیغام میں لکھا کہ یہ فیصلہ بلکل شفافیت کے لئے کیا گیا ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مختلف مصنوعات بنانے اور خدمات مہیا کرنے والے زیادہ تر لوگ کام پر جائیں اور وفاقی ملازمین گھر بیٹھ کر کام کریں۔ لیکن ایجنسیاں بڑی تعداد میں برطرفیوں یا برطرفیوں میں مشغول ہو سکتی ہیں، خاص طور پر جب ان میں ایسے کارکن شامل ہوں جو اہم کردار ادا کرتے ہیں یا انہیں تبدیل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ صدر اور ایجنسی کے سربراہوں کے پاس غیر یونین کارکنوں کو دفتر میں واپسی کے مینڈیٹ کی خلاف ورزی کی وجہ سے برطرف کرنے کا وسیع اختیار حاصل  ہے۔ لیکن وفاقی ملازمین کو تحریری اطلاع دینا ضروری ہے کہ انہیں کم از کم 30 دن پہلے برطرف کیا جا رہا ہے، بشمول ان کی برطرفی کی وجہ کی وضاحت اور جواب دینے کا موقع بھی ہو۔ دوسری جانب اپنی ملازمتوں سے محروم ہونے والے وفاقی کارکن صدر کی طرف سے مقرر کردہ ایک آزاد تین رکنی پینل ‘میرٹ سسٹمز پروٹیکشن بورڈ’ کے سامنے ایک چیلنج بھی لا سکتے ہیں۔  ملازمین بورڈ کے سامنے یہ بحث کر سکتے ہیں کہ انہیں اس وجہ سے برطرف نہیں کیا گیاکہ ملازمین نے مناسب طریقہ کار پر عمل نہیں کیا اورملازمین نے  ان کے مناسب طریقہ کار کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ بلکہ  انہیں امتیازی وجوہات کی بنا پر نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ بورڈ کے فیصلے اس وقت تک پابند ہوتے ہیں جب تک کہ وہ وفاقی اپیل کورٹ کی طرف سے الگ نہ کر دیں۔

محکمہ ماحولیات پنجاب کا فیلڈ افسران کے لیے یونیفارم لازمی پہننے کا نوٹیفیکیشن جاری

محکمہ موحولیات پنجاب

محکمہ ماحولیات پنجاب کی جانب سے فیلڈ افسران کے لیے یونیفارم پہننا لازم قرار دے دیا گیا۔ موٹر وہیکل رولز 2013 کے تحت یونیفارم پہننا ضروری ہے۔ یونیفارم کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف پیڈا ایکٹ 2006 کے تحت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ محکمہ ماحولیات پنجاب کےڈائریکٹر جنرل ای پی اے ڈاکٹر عمران حامد شیخ نے 21 جنوری کو نوٹیفکیشن جاری کیا ، جس میں کہا گیا کہ فیلڈ افسران کے لیے یونیفارم پہننا لازم ہے۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق فیصلے کا اطلاق یکم فروری 2025 سے ہوگا۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق یونیفارم پہننا تمام فیلڈ آفیسرز کے لیے ضروری ہوگا۔ سینئر انسپکٹرز سے اوپر کے افسران کے لیے یونیفارم اختیاری ہوگا۔ واضح رہے کہ موٹر وہیکل رولز 2013 کے تحت یونیفارم پہننا ضروری قرار دیا گیا ہے اور اس فیصلے کی تفصیلات کے لیے ڈپٹی کمشنرز سے مشاورت کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ یونیفارم کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف پیڈا ایکٹ 2006 کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ محکمہ ماحولیات نے اس اقدام کو آلودگی کی روک تھام کے لیے ضروری سمجھا ہے اور یونیفارم کی تفصیلات میں کلر کوڈ اور کپڑے کی ہدایات بھی شامل کی ہیں۔ افسران کو سول ڈیفنس کنٹرولرز سے یونیفارم پروٹوکولز کی رہنمائی لینے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے 470 دنوں میں ہونے والے نقصان کی تفصیلات جاری

اسرائیلی نسل کشی سے فلسطین کی صرتحال۔ / گوگل فوٹو

غزہ کی پٹی کے سرکاری میڈیا آفس کی جانب سے اسرائیلی قبضے کی طرف سے غزہ میں شروع کی گئی نسل کشی کی جنگ کےاعدادو شمار کو شائع کیا گیا ہے، جس میں نسل کشی کی اس جنگ میں فلسطین میں ہوئے جانی اور مالی نقصانات کی تفصیل جاری کی گئی ہیں۔ جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق غزہ پر 470 دنوں تک کھلے عام نسل کشی کرتے ہوئے اسرائیلی قابض فوج نے قتلِ عام کیا ، جس کے نتیجے میں تقریباً 10100 لوگ جان کی بازی ہار گئے، جب کہ 61182 لوگ لاپتہ ہو گئے۔ان لاپتہ افراد میں سے 12222 افراد ہسپتالوں تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ وزارتِ صحت غزہ کے مطابق 46960 افراد جنگ کے دوران ہسپتالوں کو موصول ہوئے۔ اس کے علاوہ 9268 فلسطینی خاندانوں کے خلاف قتلِ عام کیا گیا، جن میں سے 2092 خاندانوں کو قتل کر کے ان کو سول ریکارڈ سے مکمل طور پر مٹا دیا گیا۔ ان خاندانوں کے 5967 افراد کو شہید کیا گیا۔ اس کے علاوہ 4889 فلسطینی خاندان جنگ میں تباہ ہو گئے اور صرف ایک زندہ بچنے میں کامیاب ہوا، مجموعی طور پر ان خاندانوں کے 8980 افراد کو شہید کیا گیا۔ غزہ میں شہید ہونے والے بچوں کی بھی تفصیلات جاری کی گئی ہیں، جن کے مطابق 17861 بچے شہید کیے گئے ہیں۔ وہ نوزائیدہ بچے جو نسل کشی کے دوران پیدا ہوئے اور شہید ہوگئے ان کی تعداد 214 ہے۔ ایک سال سے کم عمر کے تقریباً 808 بچے شہید، جب کہ غذائی قلت اور فاکہ کشی کی وجہ سے 44 بچے جان کی بازی ہار گئے۔ ان کے علاوہ تقریباً 7 بچے بےگھر خیموں میں شدید سردی کے باعث شہید ہوئے۔ بچوں کے علاوہ تقریباً 12316 خواتین ایسی تھیں جو اسرائیلی قبضے کی وجہ سے شہید ہوئیں، جب کہ طبی عملے کے 1155 افراد شہید ہوئے۔ مزید یہ کہ دفاع کرتے ہوئے 94 شہری جان لٹا بیٹھے۔ فلسطین کے تقریباً 205 صحافی ایسے تھے جو اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنائے گئے۔ اس کے علاوہ امدادی اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے 150 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جس میں 736  افراد خود کو بچانے میں ناکام رہے اور اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے۔ اسرائیل کی نسل کشی سے ہسپتال بھی محفوظ نہ رہ سکے اور ہسپتالوں کے اندر قائم 7 اجتماعی قبروں سے 520 شہداء برآمد ہوئے، جب کہ 110725 افراد ایسے تھے جو زخمی تھے اور ہسپتالوں کو موصول ہوئے، تقریباً 15000 افراد ایسے ہیں جنھیں طویل مدتی بحالی کی ضرورت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 4500 اعضا کٹنے کے کیس رپورٹ ہوئے جن میں 18 فیصد بچے تھے، اعضا کٹنے سے تقریباً 70 فیصد بچے اور خواتین متاثر ہوئیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 400 صحافی اور میڈیا ورکرز زخمی ہوئے۔ اسرائیل کی جانب سے تقریباً 220 پناہ گاہ اور نقل مکانی کے مراکز کو اسرائیلی قبضے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے ساتھ غزہ کی پٹی کے 10 فیصد علاقے پر اسرائیلی قبضے نے انسانی ہمدردی کے علاقوں کے طور پر دعویٰ کیا تھا۔ وزارتِ صحت کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 38495 بچے غزہ میں ایسے ہیں جن کے ایک یا دونوں والدین اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے۔ اس کے علاوہ 13901 خواتین ایسی ہیں جنھوں نے نسل کشی کے دوران اپنے شوہروں کو کھودیا۔ غذائی قلت اور خوراک کی کمی کی وجہ سے تقریباً 3500 بچوں کی جان کو خطرہ ہے۔ 12700 زخمی ایسے ہیں جن کو بیرون ملک سے اعلاج کروانے کی ضرورت ہے۔ان کے علاوہ 12500 کینسر کے مریض غزہ میں موجود ہیں جن کو علاج کروانے کی ضرورت ہے، مزید 3000 افراد ایسے ہیں جنھیں دیگر بیماریاں ہوئیں اور انھیں علاج کروانے کی ضرورت ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق نقل مکانی کی وجہ سے متعدد بیماریوں کی وجہ سے 2136026 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کی وجہ سے تقریباً 71338 صرف ہیپاٹائٹس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی جاری نسل کشی کی وجہ سے60000 خواتین ایسی ہیں جو کہ حاملہ ہیں اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔ 350000 مریض ایسے ہیں جن کی جان کو ادویات کے داخلے پر قبضے کی روک تھام کی وجہ سے خطرہ ہے۔ غزہ میں نسل کشی کے آغاز کے بعد سے اب تک قبضے کے ذریعے تقریباً 6600 گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے 360 اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے 3 ڈاکٹروں کو جیلوں میں پھانسی دے دی گئی۔ اس کے علاوہ ناموں کے ذریعے 48 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ 26 سول ڈیفنس کے اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا، جب کہ 2 بے گھر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا۔ بے گھر ہونے والوں نے خیمے لگائے تو اسرائیلی جارحیت سے تقریباً 110000 خیمے رہنے کے لیے غیر موزوں ہوگئے۔ اسرائیلی قبضے سے 216 سرکاری ہیڈکوارٹرز تباہ ہوگئے۔ تقریباً 137 اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو قبضہ کرکے اسرائیل نے مکمل تباہ جب کہ 357 اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو جزوی طور پر تباہ کیا۔ دوسری جانب جنگ کے دوران اسرائیلی قبضے سے غزہ میں 12800 طلباء مارے گئے، جب کہ 785000 طلباء اس قبضے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہوگئے۔اس کے علاوہ اساتذہ اور تعلیمی عملہ کے 760 افراد اسرائیلی قبضے سے جان لٹا بیٹھے، جب کہ 150 اسکالرز، ماہرینِ تعلیم اور یونیورسٹی کےپروفیسروں کو اسرائیل نے قبضے کے ذریعے سزائے موت سنادی۔ غزہ میں موجود مذہبی مقامات کو بھی جارحیت کا نشانہ بنایا گیا، تقریباً 823  مساجد کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا جب کہ 158 مساجد ایسی ہیں جنھیں شدید نقصان پہنچا اور بحالی کی ضرورت ہے۔ مساجد کے علاوہ 3 گرجا گھروں کو قبضے کا نشانہ بنا کر تباہ کر دیا گیا۔ غزہ میں موجود 60 قبرستانوں میں سے 19 قبرستان ایسے ہیں جو اسرائیلی نسل کشی کی وجہ سے مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ قبضے کے ذریعے قبرستانوں سے 2300 لاشیں چرائی گئی ہیں۔ اگر ہاؤسنگ یونٹ کی بات کی جائے تو 161600 کو قبضے کے ذریعے مکمل طور پر تباہ کیا گیا، 82000 مکانات ایسے ہیں جو تباہ ہوئے ہیں اور ناقابلِ رہائش ہیں۔اس کے علاوہ 194000 ہاسنگ یونٹس کو جزوی طور پر تباہ کیا گیا ہے۔

انگلش کپتان جوز بٹلر کی بھارت ہی میں بیٹھ کر بی سی سی آئی پر تنقید

England cricket team captain Jos Buttler

انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان جوز بٹلر نے بھارت میں ہی بیٹھ کر بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کو تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ انگلش کرکٹ ٹیم کے کپتان جوز بٹلر نے کولکتہ میں بھارت کے خلاف پہلے ٹی 20 میچ سے قبل (پری میچ) پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کرکٹ کے جدید دور میں اور خاص طور پر اتنے مصروف شیڈول کے دوران کھلاڑیوں کے لئے فیملی کا ساتھ ہونا انتہائی ضروری ہے، ان کے مطابق “ٹورز پر فیملی کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ ہمیشہ مدد کرتا ہے، یہ تب زیادہ اہمیت اختیار کرتا ہے جب آپ کے قریبی لوگ آپ کے ساتھ ہوں۔ اس سے کرکٹ پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔” انگلینڈ ٹیم بھارت میں 12 فروری تک رہے گی اور پھر 2025 کی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کے لئے پاکستان روانہ ہوگی۔ انگلینڈ کا سفر روایتی حریف آسٹریلیا کے خلاف لاہور میں 22 فروری کو ہونے والے میچ سے شروع ہوگا۔ جوز بٹلر نے مزید کہا کہ “میرے خیال میں فیملیز کا کھلاڑیوں کے ساتھ ہونا بہت اہم ہے، ہم آج کل ایک جدید دنیا میں جی رہے ہیں، میرے نزدیک یہ بہت اچھا ہے کہ آپ اپنی فیملی کو ٹور پر اپنے ساتھ رکھ سکیں اور ان کی قربت سے لطف اندوز ہو سکیں۔ کرکٹ بہت زیادہ کھیلی جاتی ہے، لوگ طویل عرصے تک اپنے گھروں سے دور رہتے ہیں۔ کووڈ کے بعد یہ سب چیزیں مزید واضح ہو گئی ہیں۔ بالکل میرے خیال میں یہ کرکٹ پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتا”۔ بٹلر نے یہ بھی ذکر کیا کہ خاندان کے ساتھ وقت گزارنے اور ٹیم پر توجہ مرکوز رکھنے کے درمیان توازن قائم کرنا نہا یت ضروری ہے، انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ “میرے خیال میں یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا انتظام بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ ذاتی طور پر میری نظر میں یہ بہت ضروری ہے کہ آپ اسے اپنے خاندان کے ساتھ شیئر کریں اور گھر سے دور رہنے کا بوجھ کم کریں”۔ اس موقع پر بٹلر نے کھلاڑیوں کی فیملی کے ساتھ رہائش کے اصولوں کے حوالے سے بی سی سی آئی کی پالیسی پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اہم تبدیلی 2023 میں آئی تھی جب بی سی سی آئی نے کھلاڑیوں کے سفر اور قیام سے متعلق آف فیلڈ مسائل کو حل کیا اور فیملی کے قیام کے لئے ایک نیا اصول نافذ کیا تھا۔ اب کھلاڑیوں کو اپنے خاندان کو 14 دن تک اپنے ساتھ رکھنے کی اجازت ہو گی بشرطیکہ دورہ کم از کم 45 دن کا ہو۔ اس اصول کو لے کر بھارت کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما اور بی سی سی آئی کے نئے سیکرٹری دیواجیت سائکیا کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کرکٹ بورڈ کی جانب سے ٹیم کی حالیہ ناقص کارگردگی کے پیش نظر غیر ملکی دوروں کے دوران فیملیز کے کھلاڑیوں کے ہمراہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا، بورڈ کا ماننا ہے کہ کھلاڑیوں کے ہمراہ فیملیز کا ہونا کھیل سے ان کی توجہ کو ہٹانے کا باعث بنا جس کے باعث ٹیم کو مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

“پیپلزپارٹی تعلیم دشمنی ترک کرے”، سیاسی جماعتوں کا یونیورسٹی ایکٹ ترمیم کی مخالفت اور اساتذہ کی حمایت کا اعلان

Karachi university teachers meet Ameer Jamat e islami Karachi

جماعتِ اسلامی اور ایم کیو ایم نے سندھ حکومت کی جانب سے بیوروکریٹس کی بطور وائس چانسلر تعیناتی کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے اساتذہ کی حمایت کرنے کا اعلان کر دیا۔ امیرجماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان سے ادارہ نورحق میں کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر محسن علی کی قیادت میں ایک وفد نے ملاقات کی اور جامعہ کراچی کے مسائل اور سندھ حکومت کی جانب سے جامعات کی خود مختاری ختم کرنے کے حوالے سے اقدامات سے آگاہ کیا۔ وفد میں کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر معروف، نائب صدر غفران عالم، جوائنٹ سیکرٹری ڈاکٹر معاذ، ممبران ایگزیکٹیو کونسل ڈاکٹر اسد تنولی، ڈاکٹر وقار احمد، ڈاکٹر ذیشان ودیگر بھی موجود تھے۔ ملاقات میں نائب امیرجماعت اسلامی کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈوکیٹ، جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق، ڈپٹی سیکرٹری کراچی و شعبہ تعلیم کے چیئرمین ابن الحسن ہاشمی، ڈپٹی سکریٹری کراچی قاضی صدر الدین اورسکریٹری اطلاعات زاہد عسکری بھی موجو تھے۔ منعم ظفر خان نے یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے وفد کا خیر مقدم کیا اور ٹیچرز کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی اساتذہ کے ساتھ ہے۔ ان کے مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے اور آئندہ بھی اٹھاتے رہیں گے۔ پیپلزپارٹی تعلیم دشمنی ترک کرے، جامعات کی خود مختاری پر حملہ قبول نہیں، ہم مزاحمت کریں گے۔ پیپلزپارٹی آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق چاہتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم سرکاری سطح پر نہ دی جائے، بیوروکریٹ کا بطور وی سی تقرر تعلیم پر ڈاکا اور ذاتی و سیاسی مقاصد حاصل کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2001ء میں مشرف کے دور میں بھی بیوروکریٹ وی سی مقرر کرنے پر جماعت اسلامی نے کھل کر مخالفت کی تھی اور آج بھی ہم سیاسی وی سی کے تقرر کی مخالفت کرتے ہیں۔ حکومت کے تعلیم دشمن فیصلے پر اساتذہ کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ سندھ اسمبلی میں جماعت اسلامی کے رکن محمد فاروق نے بھی جامعات کی خود مختاری کے خلاف سندھ حکومت کے فیصلوں اور اقدامات پر آواز بلند کی ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔ ڈاکٹر محسن علی نے بتایا کہ جامعات میں بیوروکریٹ وی سی کا تقرر کرنا تعلیم دشمن فیصلہ ہے۔ جامعہ کراچی کے اساتذہ کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی کیا جارہا ہے جس سے بہترین اور باصلاحیت اساتذہ ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ حکومت نے جامعہ کراچی کی زمین پر نظریں جمائی ہوئی ہیں۔ جامعات کو پرائیوٹائذ کر کے تعلیمی اداروں کو تباہی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے تعاون کا شکر گزار ہیں۔ دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز بہادر آباد پر انجمن اساتذہ کراچی یونیورسٹی کے وفد نے سینئر مرکزی رہنما سید امین الحق سے ملاقات کی۔ وفد میں انجمن کے سرپرست اعلی ڈاکٹر شاہ علی القدر، صدر ڈاکٹر محسن و دیگر شامل تھے۔ اس موقع پر قائد حزب اختلاف سندھ اسمبلی علی خورشیدی، اراکین سندھ اسمبلی عادل عسکری، عبدالباسط،انچارج اے پی ایم ایس او محمد شہریار خان و دیگر بھی موجود تھے۔ وفد نے سید امین الحق کو سندھ حکومت کی جانب سے جامعات میں بیوروکریٹس وائس چانسلر کی تعیناتی کی اطلاعات پر اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر سید امین الحق نے وفد کی تمام گزارشات کو غور سنا اور کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان بیوروکریٹس کی بطور وائس چانسلر تعیناتی کو مسترد کرتی ہے۔ ہم اساتذہ کے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کے خلاف ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم اس مسئلے کو ایوانوں سمیت ہر فورم پر اجاگر کریں گے۔ اور اس فیصلے کی مخالفت کریں گے۔ ادھر کراچی پریس کلب میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم  نے ساتھیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انٹر بورڈ کی کارکردگی پر سردار علی شاہ کی سر براہی پر تحفظات ہیں، انٹر بورڈ سے متعلق اساتذہ اکرام کی سابقہ تحقیقات کو منظر عام پر نہیں لایا گیا، سابقہ تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی جن کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے تھی ان کو نوازا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انٹر بورڈ کے معاملے پر این ای ڈی اور جامعہ کراچی کے اساتذہ پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے، جامعات کے وی سی تعیناتی سیاسی بنیادوں پر منظورِ نہیں، جامعات کی خود مختاری پر حملہ کیا گیا، کراچی کے کالجوں میں کراچی کے پرنسپل نہیں ہیں، اسکول اور کالجز کے بعد جامعات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ناظم اسلامی جمعیت طلبہ کراچی نے مزید کہا کہ جامعات کو سائیں سرکار کی چرا گاہ نہیں بننے دیں گے، طلبہ یونین کے انتخابات پر جماعت اسلامی کی قرارداد پیش کی گئی تھی، حکومتی بینچوں نے اس قرارداد کو مسترد کر دیا اس کی مذمت کرتے ہیں، طلبہ یونین انتخابات پر عدالتی فیصلہ بھی ہے اور بلاول بھٹو بھی وعدہ کر چکے تھے، اسلامی جمعیت طلبہ جمعرات کو سندھ اسمبلی کا گھیراؤ کرے گی۔ صوبہ سندھ اور کراچی کے بچوں کے تعلیمی مستقبل داؤ پر نہیں لگنے دیں گے۔

“جسم ظاہر کرنے اور بغیر آستینوں کے کپڑے نہ پہنیں” جامعہ کراچی کی طلبا کے لباس سے متعلق گائیڈ لائنز جاری

University of Karachi

جامعہ کراچی نے طلبا کے لباس کے لیے گائیڈ لائنز جاری کر دی اور اس حوالے سے باقاعدہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا۔ جامعہ کراچی کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق طلبا کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کیمپس میں اپنی ظاہری شکل و صورت کو باوقار رکھیں اور تعلیمی ماحول کے احترام کو ظاہر کرنے والا صاف ستھرا لباس زیب تن کریں۔ نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ طلبہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مہذب لباس پہنیں اور ایسے لباس سے گریز کریں جو اشتعال انگیز، توہین آمیز یا توجہ حاصل کرنے والا ہو۔ اس کے علاوہ طلبا کے لیے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ بے حد کھلا یا جسم کو ظاہر کرنے والا لباس نہ پہنیں۔ شارٹس، بغیر آستین یا جسم سے چپکے ہوئے لباس زیب تن نہ کریں۔ ایسا لباس جس پر قابل اعتراض زبان یا تصاویر والا لباس میں زیب تن نہ کریں۔ مزید براں طلباء کو عام چپل بھی پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ جامعہ کراچی کی مشیر امور طلبہ ڈاکٹر نوشین رضا نے نیوز چینل ‘اے آر وائی’ سے بات کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ ڈریس کوڈ کے حوالے سے نوٹیفکیشن نیا نہیں ہے، یونیورسٹی ڈسپلن سے متعلق طلبا کی رہنمائی کی غرض سے نوٹیفکیشن نکالتے رہتے ہیں، جامعہ کراچی ایک بڑی جامعہ ہے جس میں 45 ہزار سے زائد طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اب بڑی تعداد میں نئے داخلے بھی ہوئے ہیں، ان طلبا کی رہنمائی کے لیے یہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر نوشین نے مزید کہا کہ طلبا کے لیے ڈریس کوڈ کراچی یونیورسٹی کے کوڈ آف کنڈکٹ میں واضح ہے، جس کے مطابق طلبا کا لباس با وقار ہونا چاہیے، اب طلبا کو صرف تنبیہہ کی گئی ہے کہ ان کو کیسا لباس پہننا چاہیے، طلبا اپنی ثقافت اور مرضی کے مطابق کوئی بھی لباس زیب تن کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ سندھ گورنمنٹ کی جانب سے یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کے فیصلے پر فیڈریشن آف آل پاکستان اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) کی اپیل پر گزشتہ 4 روز سے جامعہ کراچی سمیت سندھ بھر کے جامعات میں اساتذہ کی جانب سے تدریسی عمل کا مکمل بائیکاٹ جاری ہے، فپواسا اور سندھ حکومت کے درمیان تاحال ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ اساتذہ کے احتجاج کی وجہ سے لاکھوں طلبا علم کے حصول س محروم ہیں، سندھ بھر میں 17 سے زائد سرکاری جامعات میں سندھ سرکار کے فیصلے کے خلاف احتجاج جاری ہے، جنرل سیکریٹری فپواسا سندھ پروفیسر ناگ راج نے خبر رساں ادارے ‘اے آر وائی’ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تدریسی عمل کا بائیکاٹ غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا، 18ویں آئینی ترمیم مرکزیت کے خاتمے کے لئے ہے جبکہ سندھ سرکار اس ترمیم کی آڑ میں مرکزیت کی طرف جا رہی ہے، جامعات میں کمیشن پاس یا بیوروکریٹ کی بطور وائس چانسلر تعیناتی قابل قبول نہیں۔ پروفیسر ناگ راج نے مزید بتایا کہ فپواسا کا جنرل باڈی اجلاس جامعہ کراچی میں ہوگا جس کے بعد ہی احتجاج کے مقام کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے مطابق کوئی بھی 20ویں یا 21ویں گریڈ کا آفسر یونیورسٹی کا وائس چانسلر بن سکتا ہے۔

فلسطینی مزاحمت کے مقابلے میں ناکامی، اسرائیلی فوج کا سربراہ اور اہم افسر مستعفی

Israeli army chief Herzi Halevi

اسرائیلی فوج کے سربراہ اور جنوبی کمان کے اعلٰی افسر نے سات اکتوبر کو فلسطینی مزاحمت کے مقابلے میں ناکامی اور اس کے بعد کی صورتحال میں اپنی کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے فوج سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ آج اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ دونوں افسران نے اپنی فوجی سروسز سے استعفی دے دیا ہے۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے مطابق ‘چیف آف دی جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ہیلیوی نے خط کے ذریعے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔’ لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ییلیوی نے خط میں لکھا کہ ‘آج (منگل) میں نے وزیر دفاع کو آگاہ کیا کہ سات اکتوبر کو اسرائیلی فوج کی ناکامی کی ذمہ داری کا اعتراف کرتے ہوئے اور اس وقت جب اسرائیلی فوج ہمارے یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو نافذ کرنے کے عمل میں ہے، میں نے 6 مارچ 2025 کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کی درخواست کی ہے۔’ اسرائیلی فوجی سربراہ کے مطابق ‘اس وقت تک میں سات اکتوبر کے واقعات کی تحقیقات مکمل کرواؤں گا اور سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اسرائیلی فوج کی تیاری کو مضبوط کروں گا۔’ خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ‘میں اسرائیلی فوج کی کمانڈ اپنے جانشین کو مکمل طریقے سے منتقل کروں گا۔ میں نے اس معاملے پر وزیر دفاع اور وزیر اعظم کو ایک خط بھی بھیجا ہے۔’ دوسری جانب اسرائیلی فوج کی جنوبی کمان کے کمانڈنگ آفیسر ایم جی یارون فنکل مین نے بھی فوج سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ آج اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ‘چیف آف جنرل اسٹاف کو اپنی خدمات ختم کرنے کے فیصلے سے آگاہ کیا۔’ خیال رہے کہ قطر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان 15 ماہ طویل جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدہ طے پا گیا، اسرائیل کا ایک طویل عرصے تک یہ کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک کسی بھی جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ اتفاق نہیں کرے گا جب تک کہ اس کی فوجی کارروائیاں مکمل نہ ہو جائیں جو اس نے اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے نتیجے میں شروع کی تھیں۔ اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ غزہ کو وسیع تباہی کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں ایک سنگین انسانی بحران نے جنم لیا ہے۔ حماس کے زیرِ انتظام صحت کے وزرات کے مطابق اسرائیلی حملوں کی وجہ سے 46 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ غزہ کا بیشتر بنیادی ڈھانچہ اسرئیل کے فضائی حملوں سے تباہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر برائے ہم آہنگی کے اندازے کے مطابق 1.9 ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں جو غزہ کی آبادی کا تقریباً 90 فیصد بنتا ہے۔ کچھ افراد ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں کئی بار منتقل ہو چکے ہیں۔ تنازعے کے آغاز سے غزہ میں انخلاء کے احکامات کی نگرانی کرنے والے برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق غزہ کی تقریباً 2.3 ملین آبادی کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا ہے کیونکہ اسرائیل نے پورے علاقے میں مسلسل فضائی حملے کیے اور بڑے رہائشی علاقوں کے لیے بڑے پیمانے پر انخلاء کے احکامات جاری کیے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی فوج 470 دنوں سے غزہ میں نسل کشی کر رہی ہے۔ قابض فوج نے 10 ہزار سے زائد افراد کا قتل عام کیا، شہدا اور لاپتہ افراد کی تعداد 61 ہزار سے زائد ہے۔ 18 جنوری 2025 تک 14 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں جو اسپتال تک نہیں پہنچ سکے۔ غزاہ کی وزارت صحت کے مطابق تقریباً 47 ہزار کے قریب شہداء اسپتالوں کو موصول ہوئے، 9 ہزار سے زائد خاندانوں کے خلاف قتل عام ہوا۔ 2 ہزار سے زائد خاندانوں کو قابض صیہونی فوج نے مکمل طور پر تباہ کر دیا جن کے تقریباً 6 ہزار افراد کو شہید کیا گیا۔